نظر میں تھے كبھی دستِ غریب میں تو نہ تھے وہ جانِ سوخته كے كچھ قریب میں تو نہ تھے رہِ حیات كا ہر سنگ خود تراشا ہے یہ آبلے میرے لوحِ نصیب میں تو نہ تھے ہر ایک سنگ خدا بن گیا ہے كیوں مسعود كہیں وہ آج دیارِ منیب میں تو نہ تھے