بادشاہ مرتا نہیں
تخت کے پائے دماغوں میں گڑے ہیں آج بھی
لوگ درباروں میں صف بستہ کھڑے ہیں آج بھی
وارثانِ تاج اپنی باریوں کے منتظر
ہیں مصاحب حاشیہ برداریوں کے منتظر
دل لبھاتے شاہ کا وہ مسخرے دربار کے
آج بھی خواجہ سرا کچھ خاص ہیں سرکار کے
سچ ہے جس نے بھی کہا ہے
بادشاہ مرتا نہیں
خندہ زن ہیں پستیئ جمہور پہ محلوں کے بام
شان دکھلاتے ہیں آقا، سر جھکائے ہیں غلام
ہے وہی حفظِ مراتب، امتیازِخاص وعام
واہ ری جمہوریت! اب تک ”رعایا“ ہیں عوام
سچ ہے جس نے بھی کہا ہے
بادشاہ مرتا نہیں