برس گیا ساون پھر گھٹا چھائی ہے
آرزو کی قسمت وہی دشت صحرائی ہے
قصہٴ یوسف و زلیخا کی حقیقت
عشق خدا کی مجاز میں رونمائی ہے
زندگی جلتا ہوا تپتا ہوا صحرا ہے
اس کی مسافت تو بس آبلہ پائی ہے
حقیقت حسن صرف "لازوال" ہی ہے
کیا تاب نظارە بھی کسی نے پائی ہے
بہتے ہوئے دریا کی روانی آخر
بحر بیقراں کی بے انداز گہرائی ہے