کٹ جائے سر حسین کی نسبت تو غم نہ ہو
لیکن کسی یزید کے قدموں پہ خم نہ ہو
اہل وفاء نے مانگی ہے ہر دم یہ ہی دعاء
قائد کی فکر نو کا اجالا یہ کم نہ ہو
طوفاں میں ہم کو رہنا ہے ثابت قدم سدا
قائد کے ساتھ اپنی یہ چاہت ختم نہ ہو
موج بلا کا زور کچلنا ہے عزم سے
قدموں کو روک پائے طلاطم میں دم نہ ہو
صدموں کو ہنس کے جھیلنا عادت یونہی رہے
زخموں کو سہہ کے چشم بغاوت یہ نم نہ ہو
ہم گامزن رہیں تیرے قدموں کے نقش پر
تیری ڈگر سے ہٹ کے اٹھیں وہ قدم نہ ہو
اہل وفاء کو آئی کراہت اس امر سے
غداریوں کی پھر سے حکایت رقم نہ ہو
ٹھوکر میں رکھ کے چلتے ہیں دولت و اقتدار
ہم وہ نہیں کہ جن کے لہو میں شرم نہ ہو
بخشا ہے جس نے ذہن کو جذب جنوں اشہر
زندہ رہے دلوں سے بغاوت ختم نہ ہو