بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
Poet: محسن نقویؔ By: سارہ نوید, Karachiبچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا
برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی
اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا
ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں
تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا
بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں
کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا
بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا
مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا
کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی
کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ
رزق ملبوس مکاں سانس مرض قرض دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسنؔ
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
جو سنائی دے اسے چپ سکھا جو دکھائی دے اسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی نہ وصال رت کے کرم جتا
جو تری تلاش میں گم ہوئے کبھی ان دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تھل کا مزاج دے کبھی چشم تر کو چناب کر
یہ ہجوم شہر ستمگراں نہ سنے گا تیری صدا کبھی
مری حسرتوں کو سخن سنا مری خواہشوں سے خطاب کر
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے
یہ ختم وصال کا لمحہ ہے را ئگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھاڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر کون تیرے سائے میں بیٹھا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
یہ بدن ہے کہ آئینو ں کا دریا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتر کے ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کوبچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہو ئی قبر پر بھی کھلتا ہے
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے






