آج صبح صبح موسم کی شوخ ادائیں
دیکھ کر میرے بے چین من میں
کتنی بے نام حسرتیں جاگ رہی ہیں
کاش صبح صادق سے طلوعِ آفتاب تک
آج ایسے ہی بادل چھائیں رہیں اور
درختوں اور پودوں کی شاخیں یونہی
“ََہوا کی مستی میں“مدہوش ہو ہو کر
ایک دوسرے کو گلے سے لگاتی رہیں
اور تتلیاں پھولوں کے عشق میں
جھوم جھوم پیشانی پہ بوسہ دیتی رہیں
شاید تتلیوں کے لمس کا یہ نرم وگداز احساس
ان پھولوں کو دیر تک زندہ رہنے پہ مجبور کردے
ارے ہاں
پرندے بھی دیکھو کیسے محو ہیں اُونچی پرواز میں
اور خوشی میں کیسے زمین کی جانب قلابازیاں لگا رہے ہیں
ایک لمحے کے لیے میرے اندر بھی خوشی کا تاثر اُبھرا ہے
جسے میرے ارد گرد کے لوگوں نے محسوس بھی کر لیا ہے
مگر پھر تیرے زکر سے میں ہوگئی اُداس شمع کہ بس
خوشی کا یہی اک چھوٹا سا لمحہ شاید میری قسمت میں نہیں ہے