تیرے خیال میں کیسی یہ بے خیالی ہے
نشے میں جھوم رہاہوں گو جام خالی ہے
یہ آزمائشِ جاں کا عجب تسلسل ہے
کہ دل گریزاں ہے لیکن نظر سوالی ہے
ٹہر ٹہر کے دھڑکتا ہے ایک عرصہ سے
کسی کی عادتِ گفتار دل نے ڈالی ہے
ہمارے عصر کی کیسی یہ بدنصیبی ہے
رسن ہوئی ہے بوسیدہ صلیب خالی ہے
تری گلی سے اٹھائے گا کون اب ہم کو
تری گلی میں لحد ہم نے اب بنالی ہے
نظام دید بشر میں ہے نقص کچھ پنہاں
کہ جو نظر بھی ملے وہ نظر سوالی ہے
رنگِ گلاب رنگِ گل رنگِ شباب نہ دیکھ
تمام رنگوں سے بر تر حیا کی لا لی ہے
یہ کیسا میل ہے بینِ چراغ و تاریکی
سحر جو آئی مقابل سپرد ڈالی ہے
کرم کادر ہواوا اس طرح سے مسعود ہم پر
دعا کولب نہ ہلائے مراد پالی ہے