تضمین
بر نعت نابغہء روزگار، مجدد دین و ملت، کشتہ ء عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فاضل بریلوی حضرت مولوی احمد رضا خان قادری قدس سرہ العزیز
ازل کی رونق ، ابد کا جلوہ رخ رسالت مآب میں ہے
نظر جو پیاسی تو روح تشنہ ، ہمارا دل اضطراب میں ہے
بھٹک رہی ہے یہ قوم کب سے ، یہ کارواں اک سراب میں ہے
اٹھا تو پردہ، دکھا دو چہرا کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
کرم نشاں ہے ، عطا حوالا ، کبھی کسی کا کہا نہ ٹالا
بنے سہارا ، دیا دلاسہ ، مصیبتوں سے ہمیں نکالا
حسیں مقدر ہے بخت اعلٰی ، اسی سے ہستی میں ہے اجالا
جلی جلی بو سے اس کی پیدا، ہے سوزش چشم والا
کباب آہو میں بھی نہ پایا ، مزا جو دل کے کباب میں ہے
صبا کی رفتار کیا بیاں ہو، وہی ہے شوخی، وہی پھبن ہے
کل چٹک کر جو مسکرائی ، انھیں کے لہجے کا بانکپن ہے
کھلی جو زلف نبی کہیں پر تو ہیچ پھر نافہء ختن ہے
انھیں کی بو مایہء سمن ہے، انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں، انھیں کی رنگت گلاب میں ہے
فلک کے سارے یہ ماہ و اختر، ہیں اک نشان قدم نبی کا
خدا نے بخشا ہے دو جہاں میں ، تجھی کو مسند شہنشہی کا
اگر نہ ہوتا سہارا تیرا ، تو مر گیا ہوتا میں کبھی کا
تری جلو میں ہے ماہ طیبہ ! ہلال ہر مرگ و زندگی کا
حیات جاں کا رکاب میں ہے، ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
انھی کے خوان کرم کا بے شک ، جہاں میں کھاتے ہیں سب نوالا
پڑی ہے سر پر جہاں مصیبت ، تو کام آیا وہی حوالا
انھی نے انساں کو رنج و غم میں قدم قدم پر دیا سنبھالا
سیہ لباسان دار دنیا و سبز پوشان عرش اعلٰی
ہر اک ہے ان کے کرم کا پیاسا کہ فیض ان کی جناب میں ہے
ہے رحمتوں کا نزول جن سے ، کھلے ہیں باب عقول جن سے
ہے جن کے دم سے چمن کی عزت، ہیں سور سارے ببول جن سے
بنے ہیں سارے اصول جن سے ، دعا ہو ہر اک قبول جن سے
وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل ! یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
یہی ہے باب عطا و رحمت ، یہاں پہ دوں صبح و شام دستک
نصیب سوئے ہوئے ہیں میرے، جگا دو قسمت کبھی اچانک
نڈھال غم سے ہوں چور چور اب ، ستم اٹھاتے اٹھاتے بے شک
جلی ہے سوز جگر سے جاں تک ، ہے طالب جلوہء مبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
ہے گور اندھیری ، پڑا ہوں تنہا، خدارا آ کے مری مدد کر
مکاں ہے تربت ، متاع پتھر ، کفن ہے پوشاک ، خاک بستر
نہ کوئی مونس نہ کوئی محرم ، عجب ہے ویرانیوں کا منظر
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر ، نہ کوئی حامی ، نہ کوئی یاور
بتا دو آ کر مرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے
جو تھے جہاں کے خزانے سارے ، عطا کئے ہیں اسے خدا نے
وہ ایسا داتا ، وہ ایسا قاسم ، کرم کے جس کے نہیں ٹھکانے
خوشی مناؤ غریبو ! مل کر، وہ آیا ہے رحمتیں لٹانے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلسو ! کہ پھر کیوں تمھارا دل اضراب میں ہے
یہ دور ہے بد عقیدگی کا ، بلائیں چاروں طرف ہیں چھائیں
کہ عاشقوں نے قدم قدم پر بٰن زخم کھائے، سزائیں پائیں
مدد کا لمحہ ہے میرے آقا ! اے میرے صاحب ، اے میرے سائیں !
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں، امنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید ! مہر فرما کہ ذرہ بس اضطراب میں ہے
حسن ، حسین و بتول و حیدر کے نام نامی کی لاج رکھنا
میں نام لیوا ہوں ان کا شاہا ! اٹھے نہ عیبوں سے میرے پردا
یہی تمنا ، یہی گزارش اب اور رومی کو آرزو کیا ؟
کریم ! اپنے کرم کا صدقہ ، لئیم بے قدر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا، رضا بھی کوئی حساب میں ہے؟