کانٹوں میں تقدیر چمن بنائی جاتی ہے
یوں مرجھے ہوئے گل کی رہائی جاتی ہے
عرش دیکھتا ہے زمین کو حسرت سے ایسے
جیسے روشنی آ خری دیے کی بجھائی جاتی ہے
حصولِ محبت میں قلت بہت ہے یہاں یاروں
غربت میں ایسے عاشقوں کی فقیرائی جاتی ہے
مسافر اندھیروں میں بھٹک جاتا ہے تو
چاند سے تاریکی اس کی مٹائی جاتی ہے
زخم کو چیر کر دل میں اتر جائے جو
ایسی آ واز صبا کی گائی جاتی ہے
جفا جن کی فطرت میں شامل ہو جائے
ایسے لوگوں سے قسم وفا کیوں اٹھائی جاتی ہے
الفاظ افسردہ ہیں، اوراق نم ہو گئے ہیں
داستان بڑی مشکل سے اب سنائی جاتی ہے
تھکن کا عالم تو دیکھئے قلم بڑھتا نہیں آ گے ہم سے
دل سرشار ہے کہ موت سے اب جدائی جاتی ہے