تم نازک سی اک عورت ہو؟
Poet: بریہ By: سید خیر البریہ, Lahoreروتی آنکھوں سے تجھ کو یوں
گودی میں ماں کی رکھا تھا
بولا تھا تم پہ بوجھ ہے یہ
قسمت میں جو بھی لکھا تھا
تیری ذات کے نہ ہونے کا غم
ماں کی آنکھوں میں دکھتا تھا
اس غم کو پیار سے سینچ کے ہی
دکھ میں بھی ہار نہ دیکھ کے ہی
تیری ماں نے تجھ سے بولا تھا
ان آڑی ترچھی نظروں سے
ان سرد مہر سے لہجوں سے
گھبرانا نہ میری گڑیا تم
بس ہمت کرتی جانا تم
اک دن تو ایسا آۓ گا
ہر کوئ تجھے اپناۓ گا
تیری ذات کے نہ ہونے کا غم
میرے اندر سے مٹ جاۓ گا
اس کم عمر کی بازی میں
تیرے ہونے کی ناراضی میں
کیا قدم تیرے لرزاۓ تھے؟
تیرے عزم کو روک کیا پاۓ تھے؟
شورش کو تھام کے دنیا کی
پھر پوچھو اپنے اندر سے
تم نازک سی اک عورت ہو؟
بند باب ہوا کم عمری کا
دیکھا نیا رنگ دنیا کا
عمر سیڑھی چڑھتے جانے سے
اور جیون کے آزمانے سے
تیری ہمت آہن کم نہ ہوئی
نئ صفوں میں ہر دم بڑھتی گئ
لوگوں نے تجھ سے یہ تھا کہا
تو صنف نازک ہے میری جاں
یہ تجھ سے ہو نہ پاۓ گا
لوگوں نے تجھ سے یہ تھا کہا
تیری عمر کی گہری ریکھائیں
تیرے چہرے کو سجاتی ہیں
تیری ہمت کا بتالتی ہیں
اب تجھ سے ہو نہ پاۓ گا
ہر چوٹ پہ بھی ہر ضرب پہ بھی
کئی کڑوی باتیں پی کر بھی
ہر رشتے کو تو سجاتی گئ
وفا کی رسم نبھاتی گئ
اس رنگ برنگی دنیا میں
کیا قدم تیرے لرزاۓ تھے؟
تیرے عزم کو روک کیا پاۓ تھے؟
شورش کو تھام کے دنیا کی
پھر پوچھو اپنے اندر سے
تم نازک سی اک عورت ہو؟
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






