ہجر کے فسانے کہو ،یا پیمان کا وعدہ
داستان نہ پوچھوں اوروں کی کبھی تم
اپنے چہرے پہ لکھا تاریخ کا الفاظ تو دیکھ
جو فقط زندگی کو الجھا رہا ہے کہی
راستے تو کٹ ہی جاتے ہیں انتقام کے
ان کڑی منزلوں کا انصاف تو دیکھ
ورد فراق میں موت کا سانحہ باقی ہے
کیوں ہو رہا ہے دیوانہ دنیاں کے گرد
عبرت آخرت کا ابھی حساب تو دیکھ
پیدا خاک سے جو کر رہا حسین خواب
اس دھرتی کا تو ابھی انجام تو دیکھ