تپتے سحرا کو بھی گلزار بنا دیتی ہے
کوہ کو چیر کے دریا بھی بہا دیتی ہے
حسن آدم ہے عقل و محنت اس کی
جو اک ذرہ کو انسان بنا دیتی ہے
وہ ملیگا اتنا تو یقیں ہے مجھ کو
خاک راہ اک حوصلہ نیا دیتی ہے
وقت جاتا ہے نہ لوٹ آنے کے لئے
لمحے لمحے کی اک زیست صدا دیتی ہے
بے وجہ تو نہیں گردش ایام توصیف
سب تو فانی ہے وہ ہی باقی ہے بتا دیتی ہے