تپتے ھوئے صحراؤں میں اک فصل کٹی ھے
وہ خوف کی آندھی میں اس طرح بٹی ھے
جو مانگنے کو اٹھے تھے وہ ھاتھ کٹے ہیں
نکلے جو گھروں سے وہ اس طرح لٹے ہیں
تاریخ کا جو حصہ تھے اب اس طرح مٹے ہیں
چمکتی ھوئی صورت بھی مٹی میں اٹی ھے
بنجر ھوئی آنکھوں میں اب آنسؤ نہیں باقی
پلاتے تھے جو ھاتھوں سے کہاں گئے وہ ساقی
جو قافلے کی صورت تھے سب دور ہیں ساتھی
اس ظلم کے سمندر میں ھر شکل مٹی ھے
کچھ خواھش نہیں باقی اب جینا بھی سزا ھے
آنکھوں میں ھے وحشت نہ شرم و حیا ھے
غرور کی اس وادی میں اب ھر شخص برا ھے
اٹھ جائے جو گرون وہ تلواروں سے کٹی ھے
تپتے ھوئے صحراؤں میں اک فصل کٹی ھے
وہ خوف کی آندھی میں اس طرح بٹی ھے