جانِ مادر! نہیں سمجھ سکتے
تم مِرا ڈر ۔۔۔ نہیں سمجھ سکتے
تم کراچی میں کب رہے ہو میاں
تم سمندر نہیں سمجھ سکتے
میری شاخوں کو چوٹ لگتی ہے
پر یہ پتھر نہیں سمجھ سکتے
ایک اندھے کو ، ایک بینا کو
ہم برابر نہیں سمجھ سکتے
پیاس، پانی میں تولنے والے
بختِ اصغرؑ نہیں سمجھ سکتے