پھرا جو در سے تیرے وہ سنبھل نہیں سکتا
یہ قول ِ بکر و عمر ہے جو ٹل نہیں سکتا
علی کا عجز بھی دیکھا نبی کی قدرت بھی
نہ چاہیں آقا تو خورشید ڈھل نہیں سکتا
سنہری جالیوں کے روبرو تو ہوں لیکن
وجود گندہ ہے جالی سے مَل نہیں سکتا
ارے یوں بغضِ نبی میں نہ پھول او منکر
جو بو لہب کا ہو ساتھی وہ پھل نہیں سکتا
نبی کا ذکر ہے واعظ ادب کو تھام کے چل
گرا ہے جو بھی یہاں وہ سنبھل نہیں سکتا
صراط حق پہ گر چلنا تو محتاط رہو
انعمت سمجھے بنا کوئی چل نہیں سکتا
فرشتو اتنی تو مہلت دو ان کو آنے دو
کہ انکی دید کے بن دم نکل نہیں سکتا
ہو دور نار جہنم کیا واسطہ مجھ سے
جلا جو عشق نبی میں وہ جل نہیں سکتا
بڑا سرور ملا آج دل مچلنے پہ
کیا تیری یاد میں ہر دم مچل نہیں سکتا
ہزار ٹھوکریں کھا کے یہ وارثی عشرت
سمجھ گیا کہ تیرے بِن یہ چل نہیں سکتا