جینا یہ ہمارے لئے آسان نہیں تھا
اک آگ کے دریا سے تھا ہر روز گزرنا
کہتے بھی حکایات جنوں کس سے بھلا ہم
ہر شخص کا سینہ ہی تو زخموں سے بھرا تھا
بے مہر تھا حاکم تو جفاکار کارندے
خلقت کو تو ہر ایک یہاں لوٹ رہا تھا
مسجد جو لٹی میری، وہ مندر جو لٹا میرا
ان لوٹنے والوں کا بھی اپنا تھا بھلا کیا
ان سب کا تو پیغام محبت ہی رہا ہے
وہ جین یا عیسیٰ تھا وہ بدھا یا کرشنا
اس دنیا میں اک آگ لگا بیٹھا ہے انساں
اب چاند پہ پہنچا ہے تو دیکھیں یہ کرے کیا
پھیکیں گے زباں کاٹ کے سچ بولا اگر تو
اک یہ ہی صلہ ہے تجھے وامق جو ملے گا