جینے کو تو سب جیتے ہیں
ہر سایہ زخمی
جنگل کے پنچھی
چپ کے قیدی
بربط کے نغمے
ڈر کے شعلے پیتے ہیں
کرنے کے جذبے
روٹی کے بندی
دریا کا پانی
بھیگی بلی
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں
جو خشکی کی کن من کو
بارش سمجھے
منہ کھولے
سب آبی بھاگے
دوڑے
کچھ کٹ مرے
کچھ تھک گرے
جو چلتے گءے
خوابوں کی بستی بستے ہیں
جینے کو تو سب جیتے ہیں