حادثے کے کچھ نشاں ہم کو بھی ساحل پر ملے
نم ہوا کی سسکیاں ، روتے ہوۓ پتھر ملے
ہم نے چٹانوں کو بھی دیکھا ہے اکثر ٹوٹتے
خشک آنکھوں میں چھپے اکثر کییٔ ساگر ملے
قدر کی ان کی کسی نایاب ہیرے کی طرح
ان کے رستے میں پڑے جتنے ہمیں پتھر ملے
مختلف تھے ہم زمانے بھر سے شایٔد اِس لیۓ
ہم کو جو بھی غم ملے معمول سے ہٹ کر ملے
پانیوں میں بہہ گیںٔ خوابوں کی ساری بستیاں
باشوں کے زور سے ٹوٹے ہوۓ جب گھر ملے
شک نہیں اس کی کڑی محنت میں رتی بھر مگر
کیا کرے ایسا کِساں جس کو ز میں بنجر ملے
زندگی میں اور آگے بڑھ تو سکتی ہیں مگر
کیا کریں وہ لڑکیاں ورثے میں جِن کو ڈر ملے