حکومت میں ہمیں لُوٹ کے جانے کیلئے آ
زر سارا ہی باہر پہنچانے کیلئے آ
تجوریاں کبھی تیری یہ بھری ہیں نہ بھریں گی
ٹیکس ’ اہلِ وطن ‘ کا ہی لگانے کیلئے آ
کھوکھلے نعروں سے ہمیں بہلایا ہے تُونے
جاں فَزا نعرہ نیا کوئی سُنانے کیلئے آ
خاموش ! اَے غُربت کو مِٹانے والے
غُربت ہی کیوں غریب مِٹانے کیلئے آ
ہیں مظلوم پہ ظُلم و ستم روز کے قصّے
تشفّیوں سے سیاست چمکانے کیلئے آ
زخموں میں کمی دیکھو نہ ہو جائے ہمارے
شجر پھر سے تُو زخموں کے اُگانے کیلئے آ
فضلِ ربّی سے مرے مُلک میں اب بھی بہت ہے
گر شرم نہیں تُجھ کو تو کھانے کیلئے آ