حیا کے آئینے بھی اب سرِ بازار بکتے ہیں
Poet: رضا علی مکرم By: razaali, Azamgarhضمیرِ آدمیت کیا لہو کے دھار بکتے ہیں
فروغِ جسم نمائش میں کئی کردار بکتے ہیں
عقیدے ڈگمگاتے ہیں پلائے حسن کا ثاقی
گلاس جام بھرتے ہی کئی دلدار بکتے ہیں
کدھر جاؤ گے بچ کر کے زمانہ مار ڈالے گا
یہاں پر ہر گلی میں ظلم کے ہتھیار بکتے ہیں
دریدہ جسم پر کپڑے وہاں کیونکر عطا ہوتا
جہاں دولت کی خوشبو ہو وہیں دستار بکتے ہیں
ہماری قوم و ملت پر جہالت ایسی چھائی ہے
اسی بنیاد پر لوگوں کے اب گھر بار بکتے ہیں
تقدس پرداداری کا زمانے نے عجب لوٹا
حیا کے آئینے بھی اب سر بازار بکتے ہیں
اَدبِیّت فکر کی ہرگز تجارت میں نہیں کرتا
یہ کس نے کہہ دیا تمکو میرے اشعار بکتے ہیں
تحفظ اپنے ایماں کی رضا یہ سوچ کر کرنا
کہ اس دورِ حوادث میں بہت فنکار بکتے ہیں
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






