خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا
وہ کون لوگ تھے ، ان کا پتہ تو کرنا تھا
مرے لہو میں نہا کر جنہیں نکھرنا تھا
یہ کیا کہ لوٹ بھی آئے سراب دیکھ کے لوگ
وہ تشنگی تھی کہ پاتال تک اترنا تھا
گلی کا شور ڈرائے گا دیر تک مجھ کو
میں سوچتا ہوں دریچوں کو وا نہ کرنا تھا
یہ تم نے انگلیاں کیسے فگار کر لی ہیں ؟
مجھے تو خیر لکیروں میں رنگ بھرنا تھا
وہ ہونٹ تھے کہ شفق میں نہائی کرنیں تھیں ؟
وہ آنکھ تھی کہ خنک پانیوں کا جھرنا تھا ؟
گلوں کی بات کبھی راز رہ نہ سکتی تھی
کہ نکہتوں کو تو ہر راہ سے گزرنا تھا
خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا