خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلا
مری غزل کا خزانہ ترے بدن میں کھلا
تم اس کا حسن کبھی اس کی بزم میں دیکھو
کہ ماہتاب سدا شب کے پیرہن میں کھلا
عجب نشہ تھا مگر اس کی بخشش لب میں
کہ یوں تو ہم سے بھی کیا کیا نہ وہ سخن میں کھلا
نہ پوچھ پہلی ملاقات میں مزاج اس کا
وہ رنگ رنگ میں سمٹا کرن کرن میں کھلا
بدن کی چاپ نگہ کی زباں بھی ہوتی ہے
یہ بھید ہم پہ مگر اس کی انجمن میں کھلا
کہ جیسے ابر ہوا کی گرہ سے کھل جائے
سفر کی شام مرا مہرباں تھکن میں کھلا
کہوں میں کس سے نشانی تھی کس مسیحا کی
وہ ایک زخم کہ محسنؔ مرے کفن میں کھلا