Add Poetry

خونی سسٹم

Poet: purki By: m.hassan, karachi

خوابوں کی دنیا سے نکل آؤ
انسانوں کی بستی بناؤ

سب ہے مُکّرم اللہ کی نظر میں
بَس تقویٰ کو اپنا ماٹو بناؤ

پٹھان پنجابی یا مہاجر بلوچی
بریلوی وہابی یا سُنّی جعفری

سب ہے محض ایک پہچان کا ذریعہ
پاکستانیوں کواِن چکّروں سے بچاؤ

اسلام کو دل سے اپنا کر
پیار و محبت کے دیپ جلاؤ

اسلام امن و اخوّت کا مذہب ہے
ایک دوسرے کو اپنا بھائی بناؤ

میرا وطن خون میں لت پت ہے
متحد ہوکر ان غُنڈوں کو بھگاؤ

یہ ایک خونی سسٹم ہے
سب ملکر اس سسٹم کو مٹاؤ

جمہوریت کا صرف چرچا ہے
ان چرچا کرنے والوں کوہٹاؤ

کب تک ہم سوتے رہیں گے
سب مل کر آؤ جگاؤ

جمہوریت کی آڑ میں خون پینے والو
عوام کو اور بیوقوف مت بناؤ

تمھاری دال کبھی نہیں گلے گی
اب تم کتنا ہی زور لگاؤ

عوام نے آنکھیں کھولی ہیں
اب تم کتنا ہی مال لٹاؤ

خاندانی جمہوریت کا بھونپو بجاکر
اپنی اپنی اولادوں کو آگے بڑھاؤ

ہمیں مہنگائی اور بے روزگاری میں پھنساکر
خود ہوٹلوں میں موج اُڑاؤ

الیکشن کے دنوں میں لنگر سجاکر
بھوکوں فاقوں کے وؤٹ اُڑاؤ

اپنی اپنی ٹرانسپورٹ چلاکر
ووٹر کو گھروں سے اُٹھاؤ

ہزار دو ہزار کا لفافہ پکڑاکر
پانچ سال کے لئے موج اُڑاؤ

اپنی اپنی برادری کو یرغمال بنا کر
اسمبلیوں پر پِھر چھا جاؤ

قوم کے قیمتی سال گنواکر
قوم کا پھر خادم بن جاؤ

عربوں کی جاگیر بناکر
چُپکے چُپکے مکّے جاؤ

قوم کو غربت اور جہالت میں پھنساکر
پیچھلی حکومتوں پر الزام لگاؤ

پارلیمنٹ میں ڈیسک بجاکر
بے بس قوم کا مزاق اُڑاؤ

ٹیکس پر ٹیکس لگاکر
عوام کا خون پی جاؤ

مہنگائی کا رونا روکر
اپنی اپنی مراعات بڑھاؤ

اپنی اپنی توند بڑھاکر
خوب حاجی کہلاؤ

عوامی انقلاب اب دور نہیں
چاہے تم کتنا ہی جان لگاؤ

حکمرانوں نے ہمیں لڑایا
آؤ ملکران کو سبق سکھاؤ

انسانوں کو تقسیم در تقسیم کرکے
انکےدلوں میں پولوشن مت پھیلاؤ

وطن کا چہرہ مسخ کرنے والوں کو
پھر سے تم حکمراں مت بناؤ

قومی خزانہ لوٹنے والوں کو
پھر سے چوکیدار مت بناؤ

Rate it:
Views: 503
06 Feb, 2013
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets