دامن دل میں حسرت ناتمام لئے
آدمی پھرتا ہے مسافت صبح و شام لئے
قرار کی جیسے کوئی منزل ہی نہیں
راہ عشق ہے بے چینی کا اہتمام لئے
سر نہاں ہے زندگی انساں کیلئے
سکوت شب میں آرزؤں کا ہنگام لئے
نفس بہ نفس چلتا ہے سلسلہ محبت
روح روح سے ملتی ہے کوئی پیغام لئے
تشنہ لب ذرا نظر اٹھا تو سہی
منتظر ہے صبا ہاتھوں میں جام لئے
مت ڈھونڈھ خدا دل کے سوا کہیں اور
صحبت ساقی میں ہے کیوں خالی جام لئے