دردِ دِل کا علاج کون کرے
کل نہ ہو پایا ، آج کون کرے
میں سمجھتی ہوں جن کو فرسودہ
ایسے رسم و رواج کون کرے
سارے ہی کھیت ہیں پڑے بنجر
ان میں پیدا اناج کون کرے
بن سکے جو نہ سائباں سر کا
اس کو پھر سر کا تاج کون کرے
اب تو روٹی کے پڑ گئے لالے
پورا بیٹی کا داج کون کرے
ہو جہاں جبر کی حکمرانی
اس جگہ احتجاج کون کرے
کوئی جینے کی اب نہیں صورت
زندہ ، مردہ سماج کون کرے