دل کے در و دیوار پر لہوۓ ہاتھ کی چھاپ
وہ پوچھتے ہیں واجد کے اب کیسے ہو آپ
میں عکس پوشیدہ مجھے پکارو نہ تم
وہ بتا میرا پوچھتے واجد کہاں ہو آپ
تھا دوستی جو اب مر گیا کب کا
وہ کہتے ہیں ہمیں اپنا دوست سمجھئے آپ
ذرا قریب کے گئے اب انہیں ڈر لگتا ہے
وہ کہتے ہیں اب دور نہ جائے کہ آپ
عشق بے قرار میں جو مر چکا ہے
اب اس دل کو کہیں دفن کر آئے آپ
ہیں یادوں کے آئینے پر کیا کس تیرے
احسان کریں ان آئینوں کو توڑ آئے آپ
واجد کا اداس چہرہ اچھا نہیں لگتا
جائے اب اس چہرے کو بدل آئے آپ
بڑی مشکلوں سے سکون ملا ہے مجھے
اب مجھ کو اس عذاب میں نہ ڈالیے آپ
یہ تو یوں ہی چشم قسم زرد ہے میرے
لبوں کو دیکھیے آنکھوں پہ نہ جائے آپ
یہ رشتہ محبت اب نبھایا نہیں جاتا
ایک کام کرئے مجھ کو سچ مچ بھلائے آپ
میں تنگ آچکا ہوں تمہارے ساتھ رہ کر
چاہیے کسی اور سے دل لگاۓ آپ