دور و نزدیک ہو نہیں سکتے
تیری یادوں کو کھو نہیں سکتے
ہنستے رہتے ہیں کس قدر تنہا
تیری فرقت میں رہ نہیں سکتے
دشتِ حیرت میں ہر گھڑی جاناں
بیچ حسرت کے بو نہیں سکتے
تیری یادوں میں روتے رہتے ہیں
رات بھر ہم تو سو نہیں سکتے
غم کی طغیانیوں میں چاہت کا
ہم سفینہ ڈبو نہیں سکتے
دکھ تو یہ ہے سپیدہ کپڑوں سے
داغ تہمت کت دھو نہیں سکتے
وصل الفت کے اب یہاں وشمہ
ہم بھی موتی پرو نہیں سکتے