دلوں سے اٹھتا ہوا اک طوفان دیکھا ہے
جہاں بکتے تھے بدن اب ایمان دیکھا ہے
خزاں کا موسم پھر چمن میں نہیں لوٹا کہ
بہاروں میں اس نے اجڑتا گلستان دیکھا ہے
اپنے شہر کے حالات کی جن کو نہیں خبر
دعویٰ ہے ان کا ہم نے اک جہان دیکھا ہے
پھولوں کا ہار پہن کے مسکرانے والوں نے
کہاں کانٹوں میں الجھا کسی کا گریبان دیکھا ہے
کل پھر مہندی کی آرزو لئے جو مر جائے گی
ایسی ہی اک لڑکی کو میں نے جوان دیکھا ہے