رات سنگِ سیاہ کی دیوار
لگ رہی ہے، مگر نہیں ہوتی
دِکھتی ہے پھیلی آسمانوں تک
ایک حد سے اُدھر نہیں ہوتی
بس نظر ہی کے دائرے میں ہے
اُس زمیں پر کِھلا ہوا ہے دن
جس زمیں پر نظر نہیں ہوتی
کالی چادر ہے بس یہ کالی رات
کوئی چنگاری آزماؤ تو
ظلمتوں میں پڑیں ہزار شگاف
اک کرن ہاتھ میں جگاؤ تو
خانہئ شب سے نکلو اور دیکھو
دھوپ پھیلی ہے آسمانوں پر
نور کی لو نہیں ہوئی مدھم
جلتا سورج کبھی نہیں بجھتا
روشنی گل کبھی نہیں ہوتی