روز روز تو پھر موقعے نہیں آتے
روز روز تو انقلاب لایا نہیں جاتا
روز روز عزتیں سڑکوں پر نہیں نکلتیں
روز روز درد اپنا سنایا نہیں جاتا
عمریں گزر گئیں ھیں تاریک راتوں میں
تارہٴ امید سے اب جگمگایا نہیں جاتا
ہم آخر خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیں کیا؟
اب اور تعبیروں کا فریب کھایا نہیں جاتا
یہ کہاں کی زندگی ہے یہ کہاں کا ہے جینا
اب صبح_ ظلم سے شام_ غریباں تک جایا نہیں جاتا
ٹھہرے ھیں آنکھوں میں آنسو حیرت بن کر
پھر آ جائے گا طوفان_ نوح لایا نہیں جاتا
تیرے ماتھے پہ لکھی ہے تیری ہی داستاں
جو پڑھنا نہ چاہے اسے پڑھایا نہیں جاتا
فکر و فاقہ کیوں بنا رہے تیرا ہی مقدر؟
تر نوالہ کیوں ان کے حلق سے نکالا نہیں جاتا
یہ تو ظلم سے بھی آگے کی کوئی کہانی ہے
انقلاب لانا ہوگا تمہیں! کیوں لایا نہیں جاتا؟