رہنے کو ٹھکانہ نہیں جاڑا سر کو آیا
راہیں مشکل کٹتی نہیں تھکا سفر کو آیا
تو چل میں آیا بن کے تیرا خود کا سایہ
دیوانگی بنا تب ہوش جب صبر کو آیا
بدن اپنے کو ہاتھ اپنا ہی کھجاتا ہے
عشق بنا دل صحرا انتظارِ ابر کو آیا
ہنستے موجِ مستی، سوتے قفسِ ہستی
سازِ ردھم میں صنم حاضری قبر کو آیا
چلتا ہے کارواں سستاتا جب زمانِ جہاں
چاند چھپ جائے تو تارا بن کے ازہر کو آیا
کچے دھاگوں سے پروتا ایک لڑی میں ہر گھڑی
جمع اتنا کیا کہ ٹوٹنا من تو شر کو آیا
سوچتا ہوں تو آ یا اب میں چلا آؤں
سجدہ میں تو، میں رینگتا تیرے در کو آیا