زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں
مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے
میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں
مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں
میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں
ستاروں سے حسد کی انتہا ہے
میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں
سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا
میں تجھ سے پیشتر بجھنے لگا ہوں
مری قربت سے کیوں خائف ہے دنیا
سمندر ہوں میں خود میں گونجتا ہوں
مجھے کب تک سمیٹے گا وہ محسنؔ
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں