زندگی سے لڑنا ہمارے بس میں نہیں ہے شاید
دکھ سہکر مسکرانا ہمارے بس میں نہیں ہے شاید
بلا سبب کا گذر بھی واجب ہے خود کیلئے
جیون کو معنیٰ دینا ہمارے بس میں نہیں ہے شاید
غل گپاڑے کی ہے دنیا اور ہم نے غالب اختیار پالیئے
تاسفوں کو مرہم دینا ہمارے بس میں نہیں ہے شاید
وہ تنقید اور نصیحتیں ضیافت میں بدل گئی ہیں
اب مۂ نوشی سے نکلنا ہمارے بس میں نہیں ہے شاید
اپنے وجود کی مَٹی کا بھاؤ تو قابل رحم ہے دوست
اُسے مقدس بنانا ہمارے بس میں نہیں ہے شاید
حیات کی قابل تعظیم رسمیں زنگ آلودہ ہوگئیں
اب ضرب المثل بننا ہمارے بس میں نہیں ہے شاید