لاحاصل کی طلب لئیے
پھر حا صل کا خوف سمیٹے
ہم دوڑتے جارہے ہیں اس زندگی کی دوڑ میں بھٹکتے بھٹکتے
میں نے پایا یہاں خود کو خود کے بہت قریب
اپنی لہروں کا سلسلہ ایک شخص کے ساحل پہ ٹھراتے ٹھراتے
مین نے کب کہا کے میں خاص ہوں
میں توہ ٹوٹ گئی ہوں فکرِآپ میں اُلجھتے اُلجھتے
نہیں دیتی کوئی سبق باتیں عام مجھے
مین توہ سیکھ گئی ہوں سبق
فلسفہِ زندگی خود کو سمجھاتے سمجھاتے
بس خلش ہے مجھے اپنے آصل سے جا ملنے کی
لیکن پہنچوں کیسے قیدِ جسم کے سخت راستوں سے گزرتے گزرتے