ہؤا خیمہ زن کاروانِ بہار ---- ارم بن گیا دامنِ کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن ---- شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردہء رنگ میں ---- لہوکی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضا نیلی نیلی ، ہوا میں سرور ---- ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی ---- اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی ---- بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ ---- پہا وں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقئ لالہ فام ---- سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پلادے مجھے وہ مئے پردہ سوز ---- کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات ---- وہ مے جس سے ہے مستئ کائنات
وہ مے جس میں ہے سوز و سازِ ازل ---- وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازلٔٔ
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممومے کو شہباز سے
زمانے کے انداز بدلے گئے ---- نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ہؤا اس طرح فاش رازِ فرنگ ---- کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے ---- زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا ---- تماشا دکھا کار مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ---- ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دلِ طورِ سینا و فارا ں دو نیم ---- تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش ---- مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شریعت، کلام ---- بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی ---- یہ امت خرافات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب ---- مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
بیا اس کا منطق سے سلجھا ہؤا ---- لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہؤا
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد ---- محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا ---- یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا ---- وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا ---- مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر ---- جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہری شاخِ ملت ترے نم سے ہے ---- نفس اس بدن میںترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ---- دلِ مرتضٰی سوزِ صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر ---- تمنا کو سینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر ---- زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے ---- مرا عشق میری نظر بخش دے
مری ناؤ گرداب سے پار کر ---- یہ ثابت ہے تو اس کو سیّار کر
بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات ---- کہ تیری نگاہوںمیں ہے کائنات
مرے دیدہء تر کی بے خوابیاں ---- مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہء نیم شب کا نیاز ---- مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری ---- امیدیں مری جستجوئیں مری
مری فطرت آیئنہء روزگار ---- غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل مری رزم گاہِ حیات ---- گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر ---- اسی سے فقیری میں ہوں میںامیر
مرے قافلے میں لٹادے اسے
لٹادے ٹھکانے لگادے اسے
دمادم رواں ہے یمِ زندگی ---- ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود ---- کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود
گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گِل ---- خوش آئی اسے محنتِ آب و گِل
یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی ---- عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر ---- مگر ہی کہیں بے چگوں، بے نظیر
یہ عالم، یہ بت خانہء شش جہات ---- اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں ---- کہ تو میں نہیں، اور میں تو نہیں
من و تو سے ہے انجمن آفریں ---- مگر عین محفل میں خلوت نشیں
چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے ---- یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے
اسی کے بیاباں، اسی کے ببُول ---- اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھول
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چُور ---- کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
کہیں جرّہ شاہیں سیماب رنگ ---- لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
کبوتر کہیں آشیانے سے دور ---- پھڑکتا ہؤا جال میں ناصبور