ساقی نامہ ۔۔۔ علامہ اقبال
Poet: Allama Iqbal By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI ہؤا خیمہ زن کاروانِ بہار ---- ارم بن گیا دامنِ کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن ---- شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردہء رنگ میں ---- لہوکی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضا نیلی نیلی ، ہوا میں سرور ---- ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی ---- اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی ---- بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سِل چیر دیتی ہے یہ ---- پہا وں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقئ لالہ فام ---- سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پلادے مجھے وہ مئے پردہ سوز ---- کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات ---- وہ مے جس سے ہے مستئ کائنات
وہ مے جس میں ہے سوز و سازِ ازل ---- وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازلٔٔ
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممومے کو شہباز سے
زمانے کے انداز بدلے گئے ---- نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ہؤا اس طرح فاش رازِ فرنگ ---- کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے ---- زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا ---- تماشا دکھا کار مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ---- ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دلِ طورِ سینا و فارا ں دو نیم ---- تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش ---- مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شریعت، کلام ---- بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی ---- یہ امت خرافات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب ---- مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
بیا اس کا منطق سے سلجھا ہؤا ---- لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہؤا
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد ---- محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا ---- یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا ---- وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا ---- مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر ---- جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہری شاخِ ملت ترے نم سے ہے ---- نفس اس بدن میںترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ---- دلِ مرتضٰی سوزِ صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر ---- تمنا کو سینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر ---- زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے ---- مرا عشق میری نظر بخش دے
مری ناؤ گرداب سے پار کر ---- یہ ثابت ہے تو اس کو سیّار کر
بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات ---- کہ تیری نگاہوںمیں ہے کائنات
مرے دیدہء تر کی بے خوابیاں ---- مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہء نیم شب کا نیاز ---- مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری ---- امیدیں مری جستجوئیں مری
مری فطرت آیئنہء روزگار ---- غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل مری رزم گاہِ حیات ---- گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر ---- اسی سے فقیری میں ہوں میںامیر
مرے قافلے میں لٹادے اسے
لٹادے ٹھکانے لگادے اسے
دمادم رواں ہے یمِ زندگی ---- ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود ---- کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود
گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گِل ---- خوش آئی اسے محنتِ آب و گِل
یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی ---- عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر ---- مگر ہی کہیں بے چگوں، بے نظیر
یہ عالم، یہ بت خانہء شش جہات ---- اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں ---- کہ تو میں نہیں، اور میں تو نہیں
من و تو سے ہے انجمن آفریں ---- مگر عین محفل میں خلوت نشیں
چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے ---- یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے
اسی کے بیاباں، اسی کے ببُول ---- اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھول
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چُور ---- کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
کہیں جرّہ شاہیں سیماب رنگ ---- لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
کبوتر کہیں آشیانے سے دور ---- پھڑکتا ہؤا جال میں ناصبور
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






