طوفاں نے بڑھ کر برج حفاظت گرادیا
عزت کا وہ حصار بھرم تھا جو ڈھا دیا
عزت وطن کی بر سر بازار لوٹ کر
غیرت کو یاں نشا ن زما نہ بنا دیا
رسوائی کا دیا ہے ہمیں طوق عشق میں
اٹھے ہوئے سرون کو شرم سے جھکا دیا
آزاد قوم ہونے کا کل تک غرور تھا
احساس بے خودی تھا جو تم نے مٹا دیا
عزت کو جس کی اپنی سمجھ کر لڑے تھے ہم
اس نے ہی غیر ہونے کا طعنہ جتا د یا
الزام دے رہا ہے ہمیں بے رخی کا وہ
غفلت کا ذلتوں بھرا ٹیکہ سجا دیا
جسکے لیئے لڑے یہا ں طوفا ں سے بے خطر
اس نے آج بٹا بقا ء کا بٹھا دیا
شکوہ کنا ں ہے آج بھی کم ظرف و بے ضمیر
چاہت میں جسکی اپنا سبھی کچھ لٹا دیا
شعلے نکل رہے ہیں نگا ہو ں سے اب اشہر
نفرت نے آنسؤوں کا ٹھکا نہ جلا دیا