تاریخ اپنے زعم میں اک چال چل گئی لیکن جو شاخ ٹوٹ گئی پھول پھل گئی قطرہ جونہی گرا علی اصغر کے خون کا قصرِ ابد کے طاق میں اک شمع جل گئی