سماعت میں صدا اُبھری ہے کویٔ ان سنی جیسے
تِری آواز کی پھیلی ہے ہر سوُ روشنی جیسے
زمیں پر بانٹ دیں سوُرج نے اپنی نقریٔ کِرنیں
پرندوں نے فضاؤں میں ہے چھیڑی راگنی جیسے
چھوُا ہے روشنی کے ہاتھ نے جب سے بدن میرا
رگوں میں دوڑتی پھرِتی ہے اب تو چاندنی جیسے
میں پڑھتی جا رہی ہوں جیسے جیسے ہر خبر تازہ
ذہن میں پھیلتی جاتی ہے کویٔ سنسنی جیسے
سرِ رہ آج رہ رہ کر مِرا آ نچل اُڑاتی ہیں
ہواؤں کو بھی مجھ سے ہو گیٔ ہے دُشمنی جیسے
تجھے ہوتا ہے جب در پیش کویٔ بھی مفاد اپنا
تِرے لہجے میں گھلُ جاتی ہے کویٔ چاشنی جیسے