گھر کی تقدیر بدلنے کےلیے
ایک دن گھر سے وہ باھر نکلی
وہ اکیلی لڑکی
کتنی جانوں کا بوجھ تھا اس پر
طنز کے تیر
بھی چلے اس پر
پر نا وہ لڑکھڑائ نہ پگھلی
کسی کی میٹھی باتوں سے
کسی کی سختیوں سے
بھت سے لوگوں نے
بھکایا اسے
اور
بھت ساروں نے بھٹکایا اسے
پر وہ اپنی ھی دھن میں
چلتی گیی
ایک انجان کٹھن رستے پر
اور پھر مل گیی
اسے منزل
اس کے سب فرض بھی ھوءے پورے
ایک دن
یوں ھوا کے وہ بولی
کیا میں آزاد ھوں
کہ جی لوں میں
اپنی وہ زندگی
جو میں نے کبھی
وقت کے ھاتھ میں گروی رکھ دی
کہ کبھی بعد میں
میں جی لوں گی
پر نہ اس کو کوءی اشارہ ملا
اس کی نیہ کو نہ کنارہ ملا
بن چکی تھی وہ سونے کی چڑیا