آج کل عجب حقیقتوں کا ظہور یورہا ہے
مجھ پر اذیتوں کا نزول ہورہا ہے
اب ہے وحشتوں کا بسیرا اس دل وحشی میں
یہ کیسا ستم ہے ؟
جو مجھ پر ہورہا ہے
نکل نہ جائے میرا دم ۔۔۔۔بس کچھ ایسی حقیقتوں کا علم ہورہا ہے
موت و زندگی کی کہانی ہے بہت چھوٹی سی
بس اس کا علم مجھے اب ہورہا ہے
آجائے گا سکون کبھی مجھے بھی
پر ابھی تو میرا جان کنی کا سلسلہ شروع ہوا ہے
یہ وفا کس وقت ناپید ہوئی دنیا سے
اس کا ادراک تو مجھے اب ہورہا ہے
سہمی سی زندگی ہے موت کے سائے میں
میرے رخ سے دھیرے دھیرے جیسے سورج غروب ہورہا ہے
میں دیوانہ وار کوشش کررہی ہوں۔
پر لگتا ہے کہ دلدل کا عزم مجھ پر قوی ہورہا ہے
دکھتا ہے جنھیں روز وشب کا سفر آسان
کبھی وہاں بھی جھانک کر دیکھو
سفید کوٹوں والوں ، ٹھنڈی دیواروں کے بیچ
دن کیسے گزرتا ہے؟
رات کیسے ڈھلتی ہے؟
ہے میری محبوب ہستیاں میرے سامنے
پر عجب ہے مولا مجھ سے تو کچھ بھی نہیں ہورہا