آنکھیں تیری کتنی سندر جیسے کویٔ گہرا ساگر
جی چاہے چھپ کے رہ جاؤں میں تیری آ نکھوں کے اندر
شوہر بیٹا باپ اور بھایٔ شیشے جیسے نازک رِشتے
جب جو چاہے بے گھر کر دے اپنا کب ہے عورت کا گھر
توُ نے درد دیا جب مجھ کو شاید تجھ کو علم نہیں تھا
کتنا اونچا لے جاۓ گی مجھ کو اِک دِن تیرے ٹھوکر
جب کویٔ معصوم سی لڑکی دیکھوں تو ڈر جاتی ہوں
سونے کے پنجرے میں اُس قید نہ کر لے کویٔ ساحر
جانی پہچانی خوشبو سے آج فضایںٔ پھر مہکی ہیں
آیٔ ہیں پھر شوخ ہوایںٔ تیرے پیراہن کو چھو کر
سورج کی روپہلی کرنیں کرتی ہیں بیدار ہمیشہ
دستِ صبا دیتا ہے دستک روز تِری کھڑکی پہ آ کر
منزل تیری دور ہے عذراؔ رستہ بھی آسان نہیں
آگے غم کی گہری کھایٔ پیچھے دُکھ کا ایک سمندر