صفحَہ صفحَہ گزر رہے ہیں دن
ہم ہیں کردار اِک فسانے کے
بزم میں پوچھتے ہیں حالِ دل
دیکھ انداز آزمانے کے
کُھل گئی آنکھ جب مریدوں کی
کُھل گئے بھید آستانے کے
لب پہ شکوہ، نہ اشک آنکھوں میں
سیکھ آداب دل لگانے کے
تنکا تنکا لُٹا دیا تم نے
تم محافظ تھے آشیانے کے