عالم ذات میں جھانکو کوئی کب اچھا ہے
دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ سب اچھا ہے
رونے لگتا ہوں تو آتے ہیں دلاسے دینے
شعر پڑھتا ہوں تو کہتے ہیں عجب اچھا ہے
جانتا ہوں تو کسی اور سے مل کر خوش ہے
چل ترے پیار میں مرنے کا سبب اچھا ہے
جب فقیروں کی بھی کردار کشی کی تو نے
کیسے مانے گا کوئی تیرا نسب اچھا ہے
حال پوچھا تھا کسی نے ترے دیدار کے بعد
بائیں پہلو کو دبایا کہا اب اچھا ہے
آخری بار ملا بیٹھا رہا ساری رات
جانے والے کی عنایات کا ڈھب اچھا ہے
تو وہ دیپک ہے کہ شیدائی ہزاروں جس کے
مجھ سے بے یار و مددگار کا رب اچھا ہے