کلام سازند
خودی کو بھول جاؤں میں بھلا کیسے گوارا ہے
میری مستی میری ہستی نے مجھ کو پھر پکارا ہے
مجھے لبریز پیمانے نہیں لگتے بہت اچھے
اگر کچھ صبر ہے تیرا تو کچھ صبر ہمارا ہے
کبھی خود کو بچا لینا کبھی دل کو سزا دینا
دلوں میں سنگ دل دل بھی دلوں میں دل بچارا ہے
یہ دھڑکن تھام کر دیکھو دھڑکنے کی وجہ ہو تم
میرا ہر اشک ہے موتی میرا ہر سوز تمہارا ہے
رموزِ عشق میں دیکھا افروزِ دل لگی کے رنگ
سحابِ سائباں جیسے مجھے اُس کا سہارا ہے
کہ جس نےزندگی کےرنگ میں خوشیاں بکھیریں بھی
کہ جس نے ہر گھڑی دل کو منور کر کے پالا ہے
میں سازند دل لگی میں ہوش سے باہر نہیں رہتا
مجھے اللہ نے ایک خاص رحمت سے نوازا ہے