✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
فرھاد خانزادہ
Search
Add Poetry
Poetries by فرھاد خانزادہ
ســجے ہــــوۓ شــــہر کے مکیــــنو
مــجھے نہ دیکھ !
مـیں بے زمـاں بے مـکاں اداسـی کے کـھدرے ہـاتھ سے،،
تراشیــــدہ "ســنگ زادہ"..
مــیرے بــدن پـر قبـاۓ سـادہ..
میـں خـواہشـوں کے ہـجوم مـیں بـھی،،
خـود اپـنے خــوابوں کا آدمی ہــوں..
مـیں کــتنی صـدیوں کی بے بـسی ہـوں.!
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !!
مــیں اجــــنبی ہــــوں،،
مــیں اجــــنبی ہــــوں.!
خــود اپــنے بیــتے ہــوۓ مـہ و سـال کـی خراشـوں سے..
میــرے قــبیلے پـہ ہــــجرتــــوں کے ســفر مـیں،،
شبــــخوں.........ہــوا نے مــارا
میــرے پــس وپیــش دھــوپ ہی دھــوپ نــاچتی ہے..
مــیرے یمیــں و یـسار لاشــوں کے سرخ ٹیــلے...
میــں کــس کــا مــاتم کـروں عزیــــزو ؟؟؟
میــں کـس کـو آواز دوں .........کـہ مـیں
تـمام لاشــوں سے اجــنبی ہــوں.!!!
ســجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
کـہ مـیرا سـایہ،،
تمہـاری رنـگوں نہـائی صبـحیں
چـبا نـہ ڈالے..
کـہ میـرا سـایہ ،،
کـسی کــھنڈر مـیں پـرانی محـراب کـا دیـا ہے..
نـہ مـیرے سیـنے مــیں روشنـی ہے..
نـہ مـیرے لـب پـر کـوئی دعـا ہے !!!
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
میـری کـٹی انـگلیوں کـی زد مـیں،،
قـلم کـی جـنبش ! تـراشتـی ہے..
تـمام نـوحے اداسیـوں کے،،
تمـام لــہجے!
اجــاڑ بســتیوں کے باسیــوں کے..
مجـھے نـہ دیـکھہ ! میـری آنـکھیں،،
اجـاڑ صدیـوں کے زائـچے ہـیں..
کہ میـرے ہـونٹــوں پـہ،،
مــــوت کـی پھــانکتی ہــواؤں کے ذائــقے ہــیں..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مــجھے نہ دیــکھو !!!
میــں اپــنی میــــت کـا آپ وارث.!!
مـیں اپـنے بے آسـرا لــہو کــا،،
خــود آپ "برزخ"
میــرے نــقش مـیں اتـرتی صـبحوں،،
بـکھرتی شامـــوں کـی خـودکشی ہے..
حـذر کـرو مـیری قـربتوں سے
کہ مـیرا مــاحول "تــــنہائی" ہے..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مــــکینو !!!
مــجھے نــہ دیــکھو !!!
مجــھے نــہ چــھیڑو !!!
نہ مــیرے دکــھ کـا سـفر کـرو تــم !!!
ھـوا کـو اتـنی خـبر کـرو تـم،،،
ھـوا جــو مجـھ سے الــجھ رہے ہے..
ھـوا جــو مــٹی میـں دفـن ہـوتی ہـوئی اداسـی سے اجــنبی ہے..
ھــوا جــو رســتے مٹــا رہے ہے..
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !!
فرھاد خانزادہ
Copy
محبتوں کا نگر بنادے
یہ کاغذی توت کے شجر ہیں
کہ دل کشا ہے نہ جن کا منظر
نہ جن کا سایہ ہے روح پرور
جو بدنما ہیں، جو بےثمر ہیں!
اگائے تھے پچھلے موسموں میں
جو ہم نے، تم نے
تو اب میرے شہر، شہرِ یاراں کو
ان کا جنگل نگل رہا ہے
روش روش وہ گلاب و سرو و سمن کا منظر
بدل رہا ہے
مری زمیں بانجھ ہو رہی ہے
کہ شہر جنگل میں ڈھل رہا ہے!
عجیب موسم، عجب فضا ہے
کہ شہر ویران، بَن ہرا ہے،
خزاں گزیدہ،
اداس چہروں پہ اک حرفِ التجا ہے
یہ دعا ہے کہ ربِ کون مکاں
پھر ایک حرفِ 'کُن' سے
جگا دے اس غمکدے کی قسمت
مرے قبیلے کو پھرکوئی مردِ حُر عطا کر
وہ میرا عقبہ، وہ ابنِ نافع
یہ قیرواں، منتظر ہے جس کا
جو میرے جنگل کو گھر بنادے
محبتوں کا نگر بنادے۔۔
فرھاد خانزادہ
Copy
ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی یوسف تھے کہ بازار میسر آتے
کیسا ہرجائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
اس گلی میں ابھی تِل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دو چار میسر آتے
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دِیا کام آیا
نہ یہ جلتا، نہ یہ اشعار میسر آتے
فرھاد خانزادہ
Copy
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
اب اسکی مرضی کے وہ خزاں کو بہار لکھ دے
بہار کو انتظار لکھ دے
سفر کی خواہش کو
وہموں کے عذاب سے ہمکنار لکھ دے
وفا کے رستوں پر چلنے والوں کی قسمتوں میں
غبار لکھ دے
ہوا کی مرضی
کہ وصل موسم میں ہجر کو حصہ دار لکھ دے
محبتوں میں گزرنے والی راتوں کو
نا پائیدار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
اب اس کی مرضی
کہ وہ ھمارے دیے بجھا کر
شبوں کو با اختیار لکھ دے
ہوا کو لکھنا سکھانے والو
ھوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
فرھاد خانزادہ
Copy
گلیوں کا بچہ
مجھ کو دیکھا ہے تم نے
مجھ کو تم جانتے ہو
آوارہ سڑکوں کا بچہ ہوں میں
مجھ کو پہچانتے ہو
جب سے آنکھیں کھلیں
مجھ کو سڑکیں ملیں
گود کیا ہے، میں نے نہ جانا کبھی
پیار سچ ہے، یہ نہ مانا کبھی
کبھی بستر ملا آسماں کے تلے
کبھی کُوڑے کنارے پناہ مل گئی
میں کھلونوں کو پا کے روتا بھی کیا
مجھ کو روٹی کے ٹکڑے میں جاں مل گئی
کچھ خواب ہی ہیں حقیقت میری
کیا خواب ہی ہیں قسمت میری؟
وہ پڑھنے، لکھنے، کتابوں کا خواب
وہ روزانہ سکول جانے کا خواب
وہ کپڑے بدلنے، نہانے کا خواب
وہ بننے، سنورنے، دکھانے کا خواب
میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا خواب
وہ اپنی ہی سائیکل چلانے کا خواب
بڑا آدمی ایک بننے کا خواب
سب کو بڑا پھر بنانے کا خواب
تعبیر خود ان کو کر لوں گا میں
اپنے خوابوں میں خود رنگ بھر دوں گا میں
بس میٹھے سے اپنے کچھ بول دو
میرے ہاتھوں میں بس تم نہ کشکول دو
فرھاد خانزادہ
Copy
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جو دور افق پر رہتے ہیں
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں ہنستے ہنستے روٹھ گئے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
اک روز میں یونہی شام ڈھلے
بس تنہا تنہا بیٹھا تھا
تب چاند مجھے الجھا سا لگا
اور مجھ سے آخر کہنے لگا
معلوم ہے کچھ تم کو ارشد
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں آخر مجھ سے روٹھ گئے
میں ہر شب ڈھونڈتا رہتا ہوں
پر مشکل ہے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
فرھاد خانزادہ
Copy
سب خونی ہیں
کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں
یہ جو سرخ جزیرے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر
یہ جو غم کے دھارے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن
جتنے منظر نامے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ایک وصیت میں نے اُس کے نام لکھی
یہ جو پیار کے ناتے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کون یہاں اِس راز کا پردہ چاک کرے
جتنے خون کے رشتے ہیں ‘ سب خونی ہیں
فرھاد خانزادہ
Copy
اس دور ِ صدآشوب کی سرکار پہ لعنت
اس دور ِ صدآشوب کی سرکار پہ لعنت
ہر ننگ ِ وطن شاہ کے دربار پہ لعنت
افلاس کی قبروں سے یہ آتی ہیں صدائیں
لاشوں سے سجے بھوک کے بازار پہ لعنت
بک جائے جہاں دختر ِ مشرق سر بازار
اس محشر ِ عصمت کے خریدار پہ لعنت
جب نوحہ ء بلبل پہ گلابوں کے ھوں ماتم
پھر کیوں نہ کریں والی ء گلزار پہ لعنت
جب خلق ِ خدا راج کرے بن کے گداگر
کر کاسہ و کشکول کے انبار پہ لعنت
اے فتنہ ء حاضر کی حرفت کے مصاحب
اے دست ِ فرنگی ترے کردار پہ لعنت
سلطانی ء جمہور کہ اغیار کا منشور
دو رنگی ء مے خانہ و میخوار پہ لعنت
مفرور ِ وطن دہشت ِ اغیار کے کرتار
ہر فتنہ ء مغرب کے وفادار پہ لعنت
سن دیس بھگت نعرہ ء دم مست قلندر
اس دھرتی کے ہر قاتل و غدار پہ لعنت
درویش فقیروں پہ سدا رحمتِ افلاک
محلوں میں بسے زر کے طلبگار پہ لعنت
فرھاد خانزادہ
Copy
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﻻﮐﮫ ﺿﺒﻂ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻋﻮﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﮯ
ﮐﺎ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﮞ
ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﮨﭧ ﭘﺮ
ﺑﺮ ﻣﻼ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮔﻮﺍﺭ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﺡ ﺗﮏ ﭘﮕﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ
ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﺁﺅ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﺳﮯ
ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
فرھاد خانزادہ
Copy
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازؤوں پہ نگاہ کر ، جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کھلا ہوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرض نئے معرکوں پہ تلا ہوا
مجھے دیکھ قبضہ تیغ پر ابھی میرے ہاتھ کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو یہ میرے نسب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہوں جو حریفِ سیلِ بلا رہا
اسے مرگزار کا خوف کیا جو کفن بدوش سدا رہا
میرے غنیم نہ بھول تو کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تیرا جبر ظلم بلا سہی میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے ناز جو سن و گرز پر مجھے ناز اپنے بدن پر ہے
وہی نامہ بر ہے بہار کا ، جو گلاب میرے کفن پر ہے
فرھاد خانزادہ
Copy
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تک لکھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے، کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی، کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کِس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
یہ فرسودہ سا جملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں، آنگنوں، سڑکوں، گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تک لکھو
تمہیں کس وقت، کس سے کِس جگہ ملنا ہے کِس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھّو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے پیچوں پیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ
فرھاد خانزادہ
Copy
محبت مر بھی سکتی ہے
محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
جسے بھی چاہتےہو تم
سدا عزت اسے دینا
وگرنہ چند لمحوں میں
...محبت چھوڑ جاتی ہے
صدائیں عمر بھر بھی دو
وہ مڑ کر نہیں تکتی
بھلا کیوں ایسا ہوتا ہے؟
کہ مردے آنکھیں رکھتے ہیں
مگر کھولا نہیں کرتے
پکارو لاکھ ان کو تم
صدائیں تو وہ سنتے ہیں
لب کھولا نہیں کرتے
محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
محبت مر بھی سکتی ہے
فرھاد خانزادہ
Copy
آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی
آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی
اتنی تعمیر ہوئی ہے میری ویرانی کی
اک جہاں پھیل رہا ہے مرے دل کے اندر
یہ اکٹھی کوئی صُورت ہے پریشانی کی
وُہ خلا ہے کہ سمٹتا ہی نہیں ہے مُجھ سے
ایسی حد پار ہوئی بے سر و سامانی کی
وُہ جو حیرت کے کھلونوں پہ مچل جاتا تھا
میں نے اب تک اُسی بچّے کی نگہبانی کی
آگ سے کھیلتی رہتی تھی جو مٹی میری
اس کو پڑنی تھی ضرورت بھی کبھی پانی کی
میری خواہش پہ الاؤ کوئی روشن تو ہوا
لو لرزتی ہی رہی میری پشیمانی کی
اب تو مٹی کے سوا کوئی خریدار نہیں
تُو نے قیمت ہی گرا دی مری پیشانی کی
فرھاد خانزادہ
Copy
بس آخری بار ملو !
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہوجائیں ، کوئی اور تقاضا نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے ،زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا ، نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا ، نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ، ملو
ماتمی ہیں دم رخصت درو دیوار ، ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ، نہ اقرار نہ انکار ، ملو
آخری بار ملو
فرھاد خانزادہ
Copy
دل دکھتا ہے
آباد گھروں سے دور کہیں
جب بنجر بن میں آگ جلے
پردیس کی بوجھل راہوں میں
جب شام ڈھلے
جب رات کا قاتل سناٹا پر ہول ہوا کے وہم لیے
قدموں کی چاپ ساتھ چلے
جب وقت کا نابینا جوگی
کچھ ہنستے ہنستے چہروں پر ، بے درد رتوں کی راکھ ملے
جب شہ رگ میں محرومی کا نشتر ٹوٹے
جب ہاتھ سے ریشم رشتوں کا دامن چھوٹے
جب تنہائی کے پہلو سے
انجانے درد کی لے پھوٹے
جب زرد رتوں کے سائے میں پھول کھیلیں
جب زخم دہکنے والے ہیں
اور خوشیوں کے پیغام ملیں
اپنے دریدہ دامن کے جب
چاک سلیں
جب آنکھوں خود سے خواب بنیں
خوابوں میں بسے چہروں کی جب بھیڑ لگے
اس بھیڑ میں جب تم کھو جاؤ
جب حبس بڑھے تنہائی کا
جب خواب جلیں
جب آنکھ بجھے
تم یاد آؤ
دل دکھتا ہے
دل دکھتا ہے
فرھاد خانزادہ
Copy
انمول جنس
گلہ نمو کا نہ دل میں خزاں کا غم رکھا
میں جس کی شاخ ہوں اس پیڑ کا بھرم رکھا
وہ ایک غم ہی تو دلبستگی کا ساماں ہے
تمام عمر ہمیں جس نے تازہ دم رکھا
کچھ اس لئیے بھی میں کرتا ہوں احترام اس کا
سر آسمان کو چُھو کر بھی اس نے خَم رکھا
مجھے خبر ہے کہ یہ جنس ہے انمول یہاں
اسی لئیے نہ کبھی دل کا مول کم رکھا
تھا ایک بار - عجب سر پہ بے امانی کا
جو ماں کے بعد عدیل ابکے گھر قدم رکھا
فرھاد خانزادہ
Copy
بے معنی !
محبت اسقدر جب ھو تو پھر اظہار بے معنی
میرا اسرار بے معنی
تیرا انکار بے معنی
اگر تاریک راھوں میں نہ انکے دیپ جلتے ھوں،
تو پھر اصلوب لا حاصل،
تو پھر اشعار بے معنی
یہاں بازار برپا ھے‘ یہاں اجناس کی قیمت،
میرا ماحول تاجر ھے،
یہاں اقدار بے بے معنی
زیاں و سود پیمانے یہاں کے مختلف ٹھرے،
یہاں فکرو نظر باطل،
یہاں کردار بے معنی
اگر مخلوق کی الفت نہیں ھے جاگزیں دل میں،
یہ اورادو وظائف ھیں، میرے سرکار بے معنی
حیا سے جب نہ جھکتی ھوں، تو پھر آنکھوں میں کیا خوبی؟
نہ جھلکے لاج کی سرخی،
تو پھر رخسار بے معنی
فرھاد خانزادہ
Copy
ٹھوکریں
ٹھوکریں مار کے محفل سے اٹھاتے ہیں مجھے
اور اک پاؤں سے دامن بھی دبا رکھا ھے
فرھاد خانزادہ
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets