Poetries by فرھاد خانزادہ
ســجے ہــــوۓ شــــہر کے مکیــــنو مــجھے نہ دیکھ !
مـیں بے زمـاں بے مـکاں اداسـی کے کـھدرے ہـاتھ سے،،
تراشیــــدہ "ســنگ زادہ"..
مــیرے بــدن پـر قبـاۓ سـادہ..
میـں خـواہشـوں کے ہـجوم مـیں بـھی،،
خـود اپـنے خــوابوں کا آدمی ہــوں..
مـیں کــتنی صـدیوں کی بے بـسی ہـوں.!
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !!
مــیں اجــــنبی ہــــوں،،
مــیں اجــــنبی ہــــوں.!
خــود اپــنے بیــتے ہــوۓ مـہ و سـال کـی خراشـوں سے..
میــرے قــبیلے پـہ ہــــجرتــــوں کے ســفر مـیں،،
شبــــخوں.........ہــوا نے مــارا
میــرے پــس وپیــش دھــوپ ہی دھــوپ نــاچتی ہے..
مــیرے یمیــں و یـسار لاشــوں کے سرخ ٹیــلے...
میــں کــس کــا مــاتم کـروں عزیــــزو ؟؟؟
میــں کـس کـو آواز دوں .........کـہ مـیں
تـمام لاشــوں سے اجــنبی ہــوں.!!!
ســجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
کـہ مـیرا سـایہ،،
تمہـاری رنـگوں نہـائی صبـحیں
چـبا نـہ ڈالے..
کـہ میـرا سـایہ ،،
کـسی کــھنڈر مـیں پـرانی محـراب کـا دیـا ہے..
نـہ مـیرے سیـنے مــیں روشنـی ہے..
نـہ مـیرے لـب پـر کـوئی دعـا ہے !!!
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
میـری کـٹی انـگلیوں کـی زد مـیں،،
قـلم کـی جـنبش ! تـراشتـی ہے..
تـمام نـوحے اداسیـوں کے،،
تمـام لــہجے!
اجــاڑ بســتیوں کے باسیــوں کے..
مجـھے نـہ دیـکھہ ! میـری آنـکھیں،،
اجـاڑ صدیـوں کے زائـچے ہـیں..
کہ میـرے ہـونٹــوں پـہ،،
مــــوت کـی پھــانکتی ہــواؤں کے ذائــقے ہــیں..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مــجھے نہ دیــکھو !!!
میــں اپــنی میــــت کـا آپ وارث.!!
مـیں اپـنے بے آسـرا لــہو کــا،،
خــود آپ "برزخ"
میــرے نــقش مـیں اتـرتی صـبحوں،،
بـکھرتی شامـــوں کـی خـودکشی ہے..
حـذر کـرو مـیری قـربتوں سے
کہ مـیرا مــاحول "تــــنہائی" ہے..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مــــکینو !!!
مــجھے نــہ دیــکھو !!!
مجــھے نــہ چــھیڑو !!!
نہ مــیرے دکــھ کـا سـفر کـرو تــم !!!
ھـوا کـو اتـنی خـبر کـرو تـم،،،
ھـوا جــو مجـھ سے الــجھ رہے ہے..
ھـوا جــو مــٹی میـں دفـن ہـوتی ہـوئی اداسـی سے اجــنبی ہے..
ھــوا جــو رســتے مٹــا رہے ہے..
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !! فرھاد خانزادہ
مـیں بے زمـاں بے مـکاں اداسـی کے کـھدرے ہـاتھ سے،،
تراشیــــدہ "ســنگ زادہ"..
مــیرے بــدن پـر قبـاۓ سـادہ..
میـں خـواہشـوں کے ہـجوم مـیں بـھی،،
خـود اپـنے خــوابوں کا آدمی ہــوں..
مـیں کــتنی صـدیوں کی بے بـسی ہـوں.!
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !!
مــیں اجــــنبی ہــــوں،،
مــیں اجــــنبی ہــــوں.!
خــود اپــنے بیــتے ہــوۓ مـہ و سـال کـی خراشـوں سے..
میــرے قــبیلے پـہ ہــــجرتــــوں کے ســفر مـیں،،
شبــــخوں.........ہــوا نے مــارا
میــرے پــس وپیــش دھــوپ ہی دھــوپ نــاچتی ہے..
مــیرے یمیــں و یـسار لاشــوں کے سرخ ٹیــلے...
میــں کــس کــا مــاتم کـروں عزیــــزو ؟؟؟
میــں کـس کـو آواز دوں .........کـہ مـیں
تـمام لاشــوں سے اجــنبی ہــوں.!!!
ســجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
کـہ مـیرا سـایہ،،
تمہـاری رنـگوں نہـائی صبـحیں
چـبا نـہ ڈالے..
کـہ میـرا سـایہ ،،
کـسی کــھنڈر مـیں پـرانی محـراب کـا دیـا ہے..
نـہ مـیرے سیـنے مــیں روشنـی ہے..
نـہ مـیرے لـب پـر کـوئی دعـا ہے !!!
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
میـری کـٹی انـگلیوں کـی زد مـیں،،
قـلم کـی جـنبش ! تـراشتـی ہے..
تـمام نـوحے اداسیـوں کے،،
تمـام لــہجے!
اجــاڑ بســتیوں کے باسیــوں کے..
مجـھے نـہ دیـکھہ ! میـری آنـکھیں،،
اجـاڑ صدیـوں کے زائـچے ہـیں..
کہ میـرے ہـونٹــوں پـہ،،
مــــوت کـی پھــانکتی ہــواؤں کے ذائــقے ہــیں..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مــجھے نہ دیــکھو !!!
میــں اپــنی میــــت کـا آپ وارث.!!
مـیں اپـنے بے آسـرا لــہو کــا،،
خــود آپ "برزخ"
میــرے نــقش مـیں اتـرتی صـبحوں،،
بـکھرتی شامـــوں کـی خـودکشی ہے..
حـذر کـرو مـیری قـربتوں سے
کہ مـیرا مــاحول "تــــنہائی" ہے..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مــــکینو !!!
مــجھے نــہ دیــکھو !!!
مجــھے نــہ چــھیڑو !!!
نہ مــیرے دکــھ کـا سـفر کـرو تــم !!!
ھـوا کـو اتـنی خـبر کـرو تـم،،،
ھـوا جــو مجـھ سے الــجھ رہے ہے..
ھـوا جــو مــٹی میـں دفـن ہـوتی ہـوئی اداسـی سے اجــنبی ہے..
ھــوا جــو رســتے مٹــا رہے ہے..
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !! فرھاد خانزادہ
محبتوں کا نگر بنادے یہ کاغذی توت کے شجر ہیں
کہ دل کشا ہے نہ جن کا منظر
نہ جن کا سایہ ہے روح پرور
جو بدنما ہیں، جو بےثمر ہیں!
اگائے تھے پچھلے موسموں میں
جو ہم نے، تم نے
تو اب میرے شہر، شہرِ یاراں کو
ان کا جنگل نگل رہا ہے
روش روش وہ گلاب و سرو و سمن کا منظر
بدل رہا ہے
مری زمیں بانجھ ہو رہی ہے
کہ شہر جنگل میں ڈھل رہا ہے!
عجیب موسم، عجب فضا ہے
کہ شہر ویران، بَن ہرا ہے،
خزاں گزیدہ،
اداس چہروں پہ اک حرفِ التجا ہے
یہ دعا ہے کہ ربِ کون مکاں
پھر ایک حرفِ 'کُن' سے
جگا دے اس غمکدے کی قسمت
مرے قبیلے کو پھرکوئی مردِ حُر عطا کر
وہ میرا عقبہ، وہ ابنِ نافع
یہ قیرواں، منتظر ہے جس کا
جو میرے جنگل کو گھر بنادے
محبتوں کا نگر بنادے۔۔ فرھاد خانزادہ
کہ دل کشا ہے نہ جن کا منظر
نہ جن کا سایہ ہے روح پرور
جو بدنما ہیں، جو بےثمر ہیں!
اگائے تھے پچھلے موسموں میں
جو ہم نے، تم نے
تو اب میرے شہر، شہرِ یاراں کو
ان کا جنگل نگل رہا ہے
روش روش وہ گلاب و سرو و سمن کا منظر
بدل رہا ہے
مری زمیں بانجھ ہو رہی ہے
کہ شہر جنگل میں ڈھل رہا ہے!
عجیب موسم، عجب فضا ہے
کہ شہر ویران، بَن ہرا ہے،
خزاں گزیدہ،
اداس چہروں پہ اک حرفِ التجا ہے
یہ دعا ہے کہ ربِ کون مکاں
پھر ایک حرفِ 'کُن' سے
جگا دے اس غمکدے کی قسمت
مرے قبیلے کو پھرکوئی مردِ حُر عطا کر
وہ میرا عقبہ، وہ ابنِ نافع
یہ قیرواں، منتظر ہے جس کا
جو میرے جنگل کو گھر بنادے
محبتوں کا نگر بنادے۔۔ فرھاد خانزادہ
ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی یوسف تھے کہ بازار میسر آتے
کیسا ہرجائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
اس گلی میں ابھی تِل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دو چار میسر آتے
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دِیا کام آیا
نہ یہ جلتا، نہ یہ اشعار میسر آتے فرھاد خانزادہ
کوئی یوسف تھے کہ بازار میسر آتے
کیسا ہرجائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
اس گلی میں ابھی تِل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دو چار میسر آتے
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دِیا کام آیا
نہ یہ جلتا، نہ یہ اشعار میسر آتے فرھاد خانزادہ
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
اب اسکی مرضی کے وہ خزاں کو بہار لکھ دے
بہار کو انتظار لکھ دے
سفر کی خواہش کو
وہموں کے عذاب سے ہمکنار لکھ دے
وفا کے رستوں پر چلنے والوں کی قسمتوں میں
غبار لکھ دے
ہوا کی مرضی
کہ وصل موسم میں ہجر کو حصہ دار لکھ دے
محبتوں میں گزرنے والی راتوں کو
نا پائیدار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
اب اس کی مرضی
کہ وہ ھمارے دیے بجھا کر
شبوں کو با اختیار لکھ دے
ہوا کو لکھنا سکھانے والو
ھوا کو لکھنا جو آ گیا ھے فرھاد خانزادہ
اب اسکی مرضی کے وہ خزاں کو بہار لکھ دے
بہار کو انتظار لکھ دے
سفر کی خواہش کو
وہموں کے عذاب سے ہمکنار لکھ دے
وفا کے رستوں پر چلنے والوں کی قسمتوں میں
غبار لکھ دے
ہوا کی مرضی
کہ وصل موسم میں ہجر کو حصہ دار لکھ دے
محبتوں میں گزرنے والی راتوں کو
نا پائیدار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
اب اس کی مرضی
کہ وہ ھمارے دیے بجھا کر
شبوں کو با اختیار لکھ دے
ہوا کو لکھنا سکھانے والو
ھوا کو لکھنا جو آ گیا ھے فرھاد خانزادہ
گلیوں کا بچہ مجھ کو دیکھا ہے تم نے
مجھ کو تم جانتے ہو
آوارہ سڑکوں کا بچہ ہوں میں
مجھ کو پہچانتے ہو
جب سے آنکھیں کھلیں
مجھ کو سڑکیں ملیں
گود کیا ہے، میں نے نہ جانا کبھی
پیار سچ ہے، یہ نہ مانا کبھی
کبھی بستر ملا آسماں کے تلے
کبھی کُوڑے کنارے پناہ مل گئی
میں کھلونوں کو پا کے روتا بھی کیا
مجھ کو روٹی کے ٹکڑے میں جاں مل گئی
کچھ خواب ہی ہیں حقیقت میری
کیا خواب ہی ہیں قسمت میری؟
وہ پڑھنے، لکھنے، کتابوں کا خواب
وہ روزانہ سکول جانے کا خواب
وہ کپڑے بدلنے، نہانے کا خواب
وہ بننے، سنورنے، دکھانے کا خواب
میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا خواب
وہ اپنی ہی سائیکل چلانے کا خواب
بڑا آدمی ایک بننے کا خواب
سب کو بڑا پھر بنانے کا خواب
تعبیر خود ان کو کر لوں گا میں
اپنے خوابوں میں خود رنگ بھر دوں گا میں
بس میٹھے سے اپنے کچھ بول دو
میرے ہاتھوں میں بس تم نہ کشکول دو فرھاد خانزادہ
مجھ کو تم جانتے ہو
آوارہ سڑکوں کا بچہ ہوں میں
مجھ کو پہچانتے ہو
جب سے آنکھیں کھلیں
مجھ کو سڑکیں ملیں
گود کیا ہے، میں نے نہ جانا کبھی
پیار سچ ہے، یہ نہ مانا کبھی
کبھی بستر ملا آسماں کے تلے
کبھی کُوڑے کنارے پناہ مل گئی
میں کھلونوں کو پا کے روتا بھی کیا
مجھ کو روٹی کے ٹکڑے میں جاں مل گئی
کچھ خواب ہی ہیں حقیقت میری
کیا خواب ہی ہیں قسمت میری؟
وہ پڑھنے، لکھنے، کتابوں کا خواب
وہ روزانہ سکول جانے کا خواب
وہ کپڑے بدلنے، نہانے کا خواب
وہ بننے، سنورنے، دکھانے کا خواب
میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا خواب
وہ اپنی ہی سائیکل چلانے کا خواب
بڑا آدمی ایک بننے کا خواب
سب کو بڑا پھر بنانے کا خواب
تعبیر خود ان کو کر لوں گا میں
اپنے خوابوں میں خود رنگ بھر دوں گا میں
بس میٹھے سے اپنے کچھ بول دو
میرے ہاتھوں میں بس تم نہ کشکول دو فرھاد خانزادہ
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں جو دور افق پر رہتے ہیں
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں ہنستے ہنستے روٹھ گئے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
اک روز میں یونہی شام ڈھلے
بس تنہا تنہا بیٹھا تھا
تب چاند مجھے الجھا سا لگا
اور مجھ سے آخر کہنے لگا
معلوم ہے کچھ تم کو ارشد
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں آخر مجھ سے روٹھ گئے
میں ہر شب ڈھونڈتا رہتا ہوں
پر مشکل ہے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں فرھاد خانزادہ
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں ہنستے ہنستے روٹھ گئے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
اک روز میں یونہی شام ڈھلے
بس تنہا تنہا بیٹھا تھا
تب چاند مجھے الجھا سا لگا
اور مجھ سے آخر کہنے لگا
معلوم ہے کچھ تم کو ارشد
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں آخر مجھ سے روٹھ گئے
میں ہر شب ڈھونڈتا رہتا ہوں
پر مشکل ہے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں فرھاد خانزادہ
سب خونی ہیں کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں
یہ جو سرخ جزیرے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر
یہ جو غم کے دھارے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن
جتنے منظر نامے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ایک وصیت میں نے اُس کے نام لکھی
یہ جو پیار کے ناتے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کون یہاں اِس راز کا پردہ چاک کرے
جتنے خون کے رشتے ہیں ‘ سب خونی ہیں فرھاد خانزادہ
یہ جو سرخ جزیرے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر
یہ جو غم کے دھارے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن
جتنے منظر نامے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ایک وصیت میں نے اُس کے نام لکھی
یہ جو پیار کے ناتے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کون یہاں اِس راز کا پردہ چاک کرے
جتنے خون کے رشتے ہیں ‘ سب خونی ہیں فرھاد خانزادہ
اس دور ِ صدآشوب کی سرکار پہ لعنت اس دور ِ صدآشوب کی سرکار پہ لعنت
ہر ننگ ِ وطن شاہ کے دربار پہ لعنت
افلاس کی قبروں سے یہ آتی ہیں صدائیں
لاشوں سے سجے بھوک کے بازار پہ لعنت
بک جائے جہاں دختر ِ مشرق سر بازار
اس محشر ِ عصمت کے خریدار پہ لعنت
جب نوحہ ء بلبل پہ گلابوں کے ھوں ماتم
پھر کیوں نہ کریں والی ء گلزار پہ لعنت
جب خلق ِ خدا راج کرے بن کے گداگر
کر کاسہ و کشکول کے انبار پہ لعنت
اے فتنہ ء حاضر کی حرفت کے مصاحب
اے دست ِ فرنگی ترے کردار پہ لعنت
سلطانی ء جمہور کہ اغیار کا منشور
دو رنگی ء مے خانہ و میخوار پہ لعنت
مفرور ِ وطن دہشت ِ اغیار کے کرتار
ہر فتنہ ء مغرب کے وفادار پہ لعنت
سن دیس بھگت نعرہ ء دم مست قلندر
اس دھرتی کے ہر قاتل و غدار پہ لعنت
درویش فقیروں پہ سدا رحمتِ افلاک
محلوں میں بسے زر کے طلبگار پہ لعنت فرھاد خانزادہ
ہر ننگ ِ وطن شاہ کے دربار پہ لعنت
افلاس کی قبروں سے یہ آتی ہیں صدائیں
لاشوں سے سجے بھوک کے بازار پہ لعنت
بک جائے جہاں دختر ِ مشرق سر بازار
اس محشر ِ عصمت کے خریدار پہ لعنت
جب نوحہ ء بلبل پہ گلابوں کے ھوں ماتم
پھر کیوں نہ کریں والی ء گلزار پہ لعنت
جب خلق ِ خدا راج کرے بن کے گداگر
کر کاسہ و کشکول کے انبار پہ لعنت
اے فتنہ ء حاضر کی حرفت کے مصاحب
اے دست ِ فرنگی ترے کردار پہ لعنت
سلطانی ء جمہور کہ اغیار کا منشور
دو رنگی ء مے خانہ و میخوار پہ لعنت
مفرور ِ وطن دہشت ِ اغیار کے کرتار
ہر فتنہ ء مغرب کے وفادار پہ لعنت
سن دیس بھگت نعرہ ء دم مست قلندر
اس دھرتی کے ہر قاتل و غدار پہ لعنت
درویش فقیروں پہ سدا رحمتِ افلاک
محلوں میں بسے زر کے طلبگار پہ لعنت فرھاد خانزادہ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻻﮐﮫ ﺿﺒﻂ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻋﻮﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﮯ
ﮐﺎ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﮞ
ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﮨﭧ ﭘﺮ
ﺑﺮ ﻣﻼ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮔﻮﺍﺭ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﺡ ﺗﮏ ﭘﮕﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ
ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﺁﺅ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﺳﮯ
ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ فرھاد خانزادہ
ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻋﻮﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﮯ
ﮐﺎ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﮞ
ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﮨﭧ ﭘﺮ
ﺑﺮ ﻣﻼ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮔﻮﺍﺭ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﺡ ﺗﮏ ﭘﮕﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ
ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﺁﺅ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﺳﮯ
ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ فرھاد خانزادہ
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازؤوں پہ نگاہ کر ، جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کھلا ہوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرض نئے معرکوں پہ تلا ہوا
مجھے دیکھ قبضہ تیغ پر ابھی میرے ہاتھ کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو یہ میرے نسب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہوں جو حریفِ سیلِ بلا رہا
اسے مرگزار کا خوف کیا جو کفن بدوش سدا رہا
میرے غنیم نہ بھول تو کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تیرا جبر ظلم بلا سہی میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے ناز جو سن و گرز پر مجھے ناز اپنے بدن پر ہے
وہی نامہ بر ہے بہار کا ، جو گلاب میرے کفن پر ہے
فرھاد خانزادہ
میرے بازؤوں پہ نگاہ کر ، جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کھلا ہوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرض نئے معرکوں پہ تلا ہوا
مجھے دیکھ قبضہ تیغ پر ابھی میرے ہاتھ کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو یہ میرے نسب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہوں جو حریفِ سیلِ بلا رہا
اسے مرگزار کا خوف کیا جو کفن بدوش سدا رہا
میرے غنیم نہ بھول تو کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تیرا جبر ظلم بلا سہی میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے ناز جو سن و گرز پر مجھے ناز اپنے بدن پر ہے
وہی نامہ بر ہے بہار کا ، جو گلاب میرے کفن پر ہے
فرھاد خانزادہ
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تک لکھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے، کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی، کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کِس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
یہ فرسودہ سا جملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں، آنگنوں، سڑکوں، گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تک لکھو
تمہیں کس وقت، کس سے کِس جگہ ملنا ہے کِس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھّو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے پیچوں پیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ فرھاد خانزادہ
جس میں تک لکھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے، کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی، کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کِس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
یہ فرسودہ سا جملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں، آنگنوں، سڑکوں، گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تک لکھو
تمہیں کس وقت، کس سے کِس جگہ ملنا ہے کِس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھّو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے پیچوں پیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ فرھاد خانزادہ
محبت مر بھی سکتی ہے محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
جسے بھی چاہتےہو تم
سدا عزت اسے دینا
وگرنہ چند لمحوں میں
...محبت چھوڑ جاتی ہے
صدائیں عمر بھر بھی دو
وہ مڑ کر نہیں تکتی
بھلا کیوں ایسا ہوتا ہے؟
کہ مردے آنکھیں رکھتے ہیں
مگر کھولا نہیں کرتے
پکارو لاکھ ان کو تم
صدائیں تو وہ سنتے ہیں
لب کھولا نہیں کرتے
محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
محبت مر بھی سکتی ہے فرھاد خانزادہ
تو اتنا سوچ لینا تم
جسے بھی چاہتےہو تم
سدا عزت اسے دینا
وگرنہ چند لمحوں میں
...محبت چھوڑ جاتی ہے
صدائیں عمر بھر بھی دو
وہ مڑ کر نہیں تکتی
بھلا کیوں ایسا ہوتا ہے؟
کہ مردے آنکھیں رکھتے ہیں
مگر کھولا نہیں کرتے
پکارو لاکھ ان کو تم
صدائیں تو وہ سنتے ہیں
لب کھولا نہیں کرتے
محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
محبت مر بھی سکتی ہے فرھاد خانزادہ
آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی
اتنی تعمیر ہوئی ہے میری ویرانی کی
اک جہاں پھیل رہا ہے مرے دل کے اندر
یہ اکٹھی کوئی صُورت ہے پریشانی کی
وُہ خلا ہے کہ سمٹتا ہی نہیں ہے مُجھ سے
ایسی حد پار ہوئی بے سر و سامانی کی
وُہ جو حیرت کے کھلونوں پہ مچل جاتا تھا
میں نے اب تک اُسی بچّے کی نگہبانی کی
آگ سے کھیلتی رہتی تھی جو مٹی میری
اس کو پڑنی تھی ضرورت بھی کبھی پانی کی
میری خواہش پہ الاؤ کوئی روشن تو ہوا
لو لرزتی ہی رہی میری پشیمانی کی
اب تو مٹی کے سوا کوئی خریدار نہیں
تُو نے قیمت ہی گرا دی مری پیشانی کی فرھاد خانزادہ
اتنی تعمیر ہوئی ہے میری ویرانی کی
اک جہاں پھیل رہا ہے مرے دل کے اندر
یہ اکٹھی کوئی صُورت ہے پریشانی کی
وُہ خلا ہے کہ سمٹتا ہی نہیں ہے مُجھ سے
ایسی حد پار ہوئی بے سر و سامانی کی
وُہ جو حیرت کے کھلونوں پہ مچل جاتا تھا
میں نے اب تک اُسی بچّے کی نگہبانی کی
آگ سے کھیلتی رہتی تھی جو مٹی میری
اس کو پڑنی تھی ضرورت بھی کبھی پانی کی
میری خواہش پہ الاؤ کوئی روشن تو ہوا
لو لرزتی ہی رہی میری پشیمانی کی
اب تو مٹی کے سوا کوئی خریدار نہیں
تُو نے قیمت ہی گرا دی مری پیشانی کی فرھاد خانزادہ
بس آخری بار ملو ! آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہوجائیں ، کوئی اور تقاضا نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے ،زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا ، نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا ، نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ، ملو
ماتمی ہیں دم رخصت درو دیوار ، ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ، نہ اقرار نہ انکار ، ملو
آخری بار ملو فرھاد خانزادہ
راکھ ہوجائیں ، کوئی اور تقاضا نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے ،زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا ، نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا ، نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ، ملو
ماتمی ہیں دم رخصت درو دیوار ، ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ، نہ اقرار نہ انکار ، ملو
آخری بار ملو فرھاد خانزادہ
دل دکھتا ہے آباد گھروں سے دور کہیں
جب بنجر بن میں آگ جلے
پردیس کی بوجھل راہوں میں
جب شام ڈھلے
جب رات کا قاتل سناٹا پر ہول ہوا کے وہم لیے
قدموں کی چاپ ساتھ چلے
جب وقت کا نابینا جوگی
کچھ ہنستے ہنستے چہروں پر ، بے درد رتوں کی راکھ ملے
جب شہ رگ میں محرومی کا نشتر ٹوٹے
جب ہاتھ سے ریشم رشتوں کا دامن چھوٹے
جب تنہائی کے پہلو سے
انجانے درد کی لے پھوٹے
جب زرد رتوں کے سائے میں پھول کھیلیں
جب زخم دہکنے والے ہیں
اور خوشیوں کے پیغام ملیں
اپنے دریدہ دامن کے جب
چاک سلیں
جب آنکھوں خود سے خواب بنیں
خوابوں میں بسے چہروں کی جب بھیڑ لگے
اس بھیڑ میں جب تم کھو جاؤ
جب حبس بڑھے تنہائی کا
جب خواب جلیں
جب آنکھ بجھے
تم یاد آؤ
دل دکھتا ہے
دل دکھتا ہے فرھاد خانزادہ
جب بنجر بن میں آگ جلے
پردیس کی بوجھل راہوں میں
جب شام ڈھلے
جب رات کا قاتل سناٹا پر ہول ہوا کے وہم لیے
قدموں کی چاپ ساتھ چلے
جب وقت کا نابینا جوگی
کچھ ہنستے ہنستے چہروں پر ، بے درد رتوں کی راکھ ملے
جب شہ رگ میں محرومی کا نشتر ٹوٹے
جب ہاتھ سے ریشم رشتوں کا دامن چھوٹے
جب تنہائی کے پہلو سے
انجانے درد کی لے پھوٹے
جب زرد رتوں کے سائے میں پھول کھیلیں
جب زخم دہکنے والے ہیں
اور خوشیوں کے پیغام ملیں
اپنے دریدہ دامن کے جب
چاک سلیں
جب آنکھوں خود سے خواب بنیں
خوابوں میں بسے چہروں کی جب بھیڑ لگے
اس بھیڑ میں جب تم کھو جاؤ
جب حبس بڑھے تنہائی کا
جب خواب جلیں
جب آنکھ بجھے
تم یاد آؤ
دل دکھتا ہے
دل دکھتا ہے فرھاد خانزادہ
انمول جنس گلہ نمو کا نہ دل میں خزاں کا غم رکھا
میں جس کی شاخ ہوں اس پیڑ کا بھرم رکھا
وہ ایک غم ہی تو دلبستگی کا ساماں ہے
تمام عمر ہمیں جس نے تازہ دم رکھا
کچھ اس لئیے بھی میں کرتا ہوں احترام اس کا
سر آسمان کو چُھو کر بھی اس نے خَم رکھا
مجھے خبر ہے کہ یہ جنس ہے انمول یہاں
اسی لئیے نہ کبھی دل کا مول کم رکھا
تھا ایک بار - عجب سر پہ بے امانی کا
جو ماں کے بعد عدیل ابکے گھر قدم رکھا فرھاد خانزادہ
میں جس کی شاخ ہوں اس پیڑ کا بھرم رکھا
وہ ایک غم ہی تو دلبستگی کا ساماں ہے
تمام عمر ہمیں جس نے تازہ دم رکھا
کچھ اس لئیے بھی میں کرتا ہوں احترام اس کا
سر آسمان کو چُھو کر بھی اس نے خَم رکھا
مجھے خبر ہے کہ یہ جنس ہے انمول یہاں
اسی لئیے نہ کبھی دل کا مول کم رکھا
تھا ایک بار - عجب سر پہ بے امانی کا
جو ماں کے بعد عدیل ابکے گھر قدم رکھا فرھاد خانزادہ
بے معنی ! محبت اسقدر جب ھو تو پھر اظہار بے معنی
میرا اسرار بے معنی
تیرا انکار بے معنی
اگر تاریک راھوں میں نہ انکے دیپ جلتے ھوں،
تو پھر اصلوب لا حاصل،
تو پھر اشعار بے معنی
یہاں بازار برپا ھے‘ یہاں اجناس کی قیمت،
میرا ماحول تاجر ھے،
یہاں اقدار بے بے معنی
زیاں و سود پیمانے یہاں کے مختلف ٹھرے،
یہاں فکرو نظر باطل،
یہاں کردار بے معنی
اگر مخلوق کی الفت نہیں ھے جاگزیں دل میں،
یہ اورادو وظائف ھیں، میرے سرکار بے معنی
حیا سے جب نہ جھکتی ھوں، تو پھر آنکھوں میں کیا خوبی؟
نہ جھلکے لاج کی سرخی،
تو پھر رخسار بے معنی
فرھاد خانزادہ
میرا اسرار بے معنی
تیرا انکار بے معنی
اگر تاریک راھوں میں نہ انکے دیپ جلتے ھوں،
تو پھر اصلوب لا حاصل،
تو پھر اشعار بے معنی
یہاں بازار برپا ھے‘ یہاں اجناس کی قیمت،
میرا ماحول تاجر ھے،
یہاں اقدار بے بے معنی
زیاں و سود پیمانے یہاں کے مختلف ٹھرے،
یہاں فکرو نظر باطل،
یہاں کردار بے معنی
اگر مخلوق کی الفت نہیں ھے جاگزیں دل میں،
یہ اورادو وظائف ھیں، میرے سرکار بے معنی
حیا سے جب نہ جھکتی ھوں، تو پھر آنکھوں میں کیا خوبی؟
نہ جھلکے لاج کی سرخی،
تو پھر رخسار بے معنی
فرھاد خانزادہ