فقیر
Poet: جاوید صدیقی By: جاوید صدیقی, کراچیدنیا کی زندگی میں جب قدم رکھا تھا میں نے
ماں باپ کے عظیم رشتوں کو پایا تھا میں نے
ہزار باتیں سنیں اور ہزار قصے سنیں تھے میں نے
کبھی ماں ،کبھی باپ اور کبھی استاد سے میں نے
علم دنیا اور علم دین کو سیکھا تھا جب میں نے
نجانے کیوں خلش کو محسوس کیا تھا میں نے
اُس فقیر سے ملاقات کی تھی جب میں نے
اک لفظ میں ہی عیاں کردیا سب اُس نے
اے ریاض! زندگی کا مقصد سمجھا دیا ہے اُس نے
بند آنکھوں ہی میں حقیقت دکھا دیا ہے اُس نے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






