آگ خون دہشت کے رنگ یہاں جمائے ہیں
بیکسوں کی لاشوں پر آشیاں بنائے ہیں
بستیوں کے جلنے کا کتنا خونی منظر ہے
تم نے آگ کے شعلے کیوں یہاں سجائے ہیں
تم نے حکمرانی کا دور جو گزارا ہے
بیگناہ قتل کر کے سب نشاں مٹائے ہیں
آج جس زمیں پر نفرتوں کو بوتے ہو
اس زمیں کی قیمت ہم دے کے خون چکائے ہیں
جہل کے یہ پروردہ روشنی کے قاتل ہیں
بن کے یہ جہالت کے پاسبان آئے ہیں
شب کے چاہنے والوں کی زندگی کا مقصد ہے
ظلم کے اندھیرے ہیں ظلمتوں کے سائے ہیں
آج خون چھلکتا ہے بیکسوں کی آنکھوں سے
اب وہ لوٹنے خوشیاں طالموں کی آئے ہیں
سن تیرا کوئی حربہ اب نہ کام آئیگا
آج ہم کفن اپنا ساتھ لے کے آئے ہیں
جس پہ حق جتاتے ہو کہہ کہ تم زمیں اپنی
ہم نے اسکی خاطر ہی کارواں لٹائے ہیں
حق کا بول بالا ہو، ہر طرف اجالا ہو
ہم نے گیت قائد کے اب یہاں پہ گائے ہیں
ظلم کرنے والوں کا دور اب ختم ہوگا
ہم نے حق پرستی کے اب علم اٹھائے ہیں