Add Poetry

مجھےتو لوٹ لیا-پاکستان کی فریاد-تضمین

Poet: Ismail Wali By: Ismail Wali, peshawar

کویی افسر، کویی نوکر، کویی چپڑاسی
طاقت ہو جس میں کھانے کی ذرا سی
نوچتے ہیں مجھے دن میں رات کو بھی
تاریخ ہے گواہ میرے وطن کے باسی

یاروں نے ،اپنوں نے، پیاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

کک بیکس کبھی کمیشن کے نام پر
ہاں کبھی اینٹی کرپشن کے نام پر
بریلوی یا دیو بندی ، سندھی یا بلوچی
کبھی مذہب اور کبھی نیشن کے نام پر

طاقت کے، دوستو! پرستاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

رہتا ہے گرم بازار سیاست کا
باڑ میں جاے تصور ریاست کا
ممبری رہے سات پشتوں میں
یہی تو مزہ ہے بھایی سیاست کا
مختصر ،مال بنانے کے متوالوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
کیسی مشکل ، ناخدا ہے خواب میں
پھنس گیی کشتی میری گرداب میں
تعبیر اس کی امروں کی گود میں
لیگ نے بچے دیے پنجاب میں

چودھریوں نے تو کبھی نوازوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
روٹی ، کپڑا ، اور مکان کی باتیں
خود ہیں امیر غریب انسان کی باتیں
سادہ لوح لوگوں کو پھنسانے کے لیے
سینہ تان کر پھر زندان کی باتیں
بے نامی کھاتوں کے رکھوالوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشاروں نے

مصور کا خواب دہشت کی علامت
اپنوں کی سازش کس کو کریں ملامت
اب تو راکھ میں چنگاریاں بھی نہیں
سیاست کی اگ میں جل گیی امامت
خون میں نہلایا کس کے پرستاروں نے؟
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
یہاں ہر طرف ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے
اور مذہب کے نام پر بھی تجارت ہے
کام ہیں سارے ناپاکی کے یہاں
صرف پاک کا لفظ براے تلاوت ہے
تاجروں نے ،دوکان داروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
پیروں نے بھی اور مریدوں نے
امیروں نے بھی اور غریبوں نے
الحمد ا للہ کی تکرار سے اور
ہاںمعصوم بن کے شریفوں نے
الو اور چیل نہیں شاہبازوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروںنے

مختلف لبادوں میں جگ پرستوں نے
ملک دشمنوں نے الگ پرستوں نے
خدا پرستی کو چھوڑ کر خود پرست والے
جعلی پیروں نے ، مسلک پرستوں نے

داڑھی کے سایوں میں ریاکاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

کہیں پگڑی والے، کہیں پتلوں والے
کہیں تصویر والے، کہیں کارٹون والے
کہیں ہیں تھوک والے کہیں پرچون والے
کہیں ٹونکے والے کہیں افسون والے

کس کس کا نام لوں بت ساروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

کوڑا کرکٹ سے وہ بجلی بناتے ہیں
جو چیز بناتے ہیں اصلی بناتے ہیں
پاک وطن میں میرے صنعتکار
ہر ناپاک شی سے گھی بناتے ہیں
صنعت کاروں نے پیسے کے بیماروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

کرتے ہیں بعض لوگ لکڑی کا دھندا
کہیں لوہے کا پھاندا ، کہیں مسجد کا چندہ
یہی تو طریقے ہیں "طریقتوں" کے
کہیں تسبیح ، کہیں ستارہ ' ہاتھ میں ڈنڈا

پھندے الگ لگاے ہیں یاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل ہوشیاروں نے

مریض کی جیب پر جراحوں کی نظر
ڈوپتی کشتی پر ملاحوں کی نظر
فیس کی اڑان سے ہے طبیب کا مقام
کب لگے کی اس کو بیما روں کی نظر

زندگی برباد کی میری مسیحاوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

ہر گلی میں، دوستو ! تعلیم کی دکان ہے
بگتی ہے ایسی انگریزی زبان ہے
منزل نا معلوم مقصد بھی ہے معدوم
طالب جو خوش ہے استاد مہربان ہے

ڈرامہ ایسا رچایا بے روزگاروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

بے روز گار لوگ سیاست کرتے ہیں
سیاست کے ذریعے تجارت کرتے ہیں
اگر تجارت نہ چمکے با وجوہ نا معلوم
اگ لگانے کی شرارت کرتے ہیں

میرے سینے کو داغ دیا ان غداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

چترال تا کراچی علوم کا جال ہے
اگر سچ کہوں تو علم کا بد حال ہے
سوال کیا میں نے ایک سیانے سے
تو کہا، ووٹ لینے کی موثر چال ہے

سیکھ لیا ہے جسکو غربت کے ماروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

دے کر مرکز میں مقابلے کا امتحان
بن جاتا ہے افیسر جب کویی انسان
جمع اتنا کرتا ہے نوٹوں کا انبار
شمار کرتے ہوے تھکتی ہیں انگلیاں

کرپشن کے پس منظر میں کرداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

بنتا ہے جو بھی ایک بڑا منصوبہ
ہوتا ہے بعد میں ثابت وہ ملغوبہ
سامنے اتے ہیں پھر ایسے پردہ نشین
شیطان بھی کہتا ہے توبہ میری توبہ

اور جو ہیر پھیر کیا ٹھیکہ داروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

نانوں سے لیکر نواسوں کی مرادیں
ایڈیٹر سے کہیں وہ ذرا کلپس چلا دیں
دوبیی میں دکانیں سویس بنک میں پیسے
دادوں سے لیکر پوتوں کی جایدادیں

منی لانڈرنگ کے شہ سواروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

ہر دل میں ایک چور بس رہا ہے
چھپ کے سے وہ کمر کس رہا ہے
کبھی مذہب کا لبادہ پہن کر
سیاست سانپ ہے ڈس رہا ہے
سمو چا ہی نگلا جعلی خداوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

ٹکنالوجی کا دور ہے بایٹس کی باتیں
میڈیا پہ ہوتی ہیں رایٹس کی باتیں
بھو ل کر بھی نہ ہو ں فرایض کی باتیں
دن جا باڑ میں فری نایٹس کی باتیں

چراغوں نے رومانس کے پروانوں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

ہر جامعہ میں ہے کوالٹی کا ادارہ
معیار مر گیا ابھی نکلا ہے جنازہ
بی ایس فزکس کو نیوٹن نہیں معلوم
یہ ہے امریکہ کی غلامی کا خمیازہ

نام ہے اعلی غلامی کے اداروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے

وزیروں نے بھی اور مشیروں نے
مریدوں نے بھی اور پیروں نے
غریبوں نے بھی اور امیروں نے
شریفوں نے بھی اور کمینوں نے
قسم کھا کر جی ہاں اللہ کے حضور
ایوان میں بیٹھے ہوے امینوں نے
پردہ نشیوں نے با ضمیروں نے
ایک تو عیان ہے کیی حسینوں نے
معلوم ہے تجھے اخگر کے شراروں نے
مجھے تو لوٹ لیا مل کے ہوشیاروں نے
 

Rate it:
Views: 462
22 Mar, 2019
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets