مجھے اک خواب لکھنا ہے
آنکھوں میں مہتاب لکھنا ہے
لکھ تو دوں
آنکھیں ہی کیا
کندھوں سے جدا سر
بل کے ہاں
گروی پڑا ہے
مرے پرکھوں کی یہ کمائ
اس کے ہاتھ کیسے آئ
مرے ہاتھوں کا تراشا صنم
اپنی عیاشیوں کے عوض
کچھ ٹکوں میں
کہیں اس کو نہ دے آیا ہو
پوچھنا تو ہو گا
میرا سر بریدہ جسم
محتسب کے پاس جاءے کیسے
فرض کا قرض نبھاءے کیسے
عہد آج کا
دولت عزیز رکھتا ہے
اپنی آنکھوں کے عوض
دے سکتا ہوں میں
خضر کی چاپ
جو مری ضرورت نہیں
مجھے اک خواب لکھنا ہے
آنکھوں میں مہتاب لکھنا ہے