سُرخ اور تازہ لُہو
جہدِ موسیٰ سے نمو پاتا لُہو
دست یوسف سا
زمیں کو سبز رُو کرتا لُہو
ہے مہکتا البنا کی فکر اورکردار سے
راہ نمائی پارہا ہے یہ عمر مختار سے
سرزمینِِ مصر پر بہتا لُہو
تم سمجھتے ہو لُہو یہ خاک میں سوجائے گا؟
بہتے بہتے نیل کی لہروں میں گم ہوجائے گا؟
اے فرعونو! تم رہو گے، اور یہ کھوجائے گا؟
یہ نہیں ہوپائے گا
سُرخ لہروں کا تسلسل موج بن جانے کو ہے
قاہرہ میں قہر کا طوفان اک آنے کو ہے
غرق آبی کا وہ قصہ یہ لُہو دہرا ئے گا
سیسی تو بھی اپنے جَد کی طرح مارا جائے گا